کراچی (کنزیومرواچ نیوز)ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد نےکہا کہ ناکامی دراصل انسان کی سب سے بڑی معلم ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم پوری محنت اور اخلاص کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے، جس سے دل بوجھل ہو جاتا ہے، مگر یہی لمحے ہمیں مضبوط بناتے ہیں۔انہوں نے یہ بات 18 دسمبر 2025 کو ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کے زیرِ اہتمام ہمدرد نونہال اسمبلی کے اجلاس بیت الحکمہ آڈیٹوریم، مدینۃ الحکمہ میں اسمبلی کے موضوع،“ناکامی افتاد نہیں، استاد ہے” پر نونہالوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔انہوں نے کہا کہ ناکامی نہ دشمن ہے نہ ٹھوکر بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہماری کمزوریوں اور پوشیدہ صلاحیتوں کو واضح کرتا ہے۔ جو بچے اور نوجوان ناکامی سے سبق سیکھ لیتے ہیں، وہی مستقبل میں کامیابی کے دروازے کھولتے ہیں۔ انہوں نے حکیم محمد سعیدؒ کی زندگی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ محدود وسائل اور مشکلات کے باوجود ان کی مستقل جدوجہد نے ہمدرد فاؤنڈیشن اور ہمدرد یونیورسٹی جیسے عظیم اداروں کو جنم دیا۔ انہوں نے نونہالوں کو نصیحت کی کہ کامیابی اکثر پہلی کوشش میں نہیں ملتی بلکہ بار بار کی گئی کوششیں ہی انسان کو منزل تک پہنچاتی ہیں۔
اس موقع پر مہمانِ خصوصی ممتاز ماہرِ تعلیم محترمہ فاطمہ عبید نے اپنے خطاب میں والدین اور اساتذہ کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب کوئی بچہ ناکام ہو تو اسے ڈانٹنے کے بجائے حوصلہ دینا، گلے لگانا اور اس کا ساتھ دینا بے حد ضروری ہے۔ انہوں نے ریفلیکٹو پریکٹس (خود احتسابی) کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اپنی غلطیوں پر سوال اٹھانا، ان کا تجزیہ کرنا اور خود پر تنقیدی نظر ڈالنا ہی کامیابی کی بنیاد بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی انسان کامل نہیں، غلطیاں کرنا ناکامی نہیں بلکہ ان سے سیکھنا اصل کامیابی ہے۔
قبل ازاں قائدِ ایوان عائشہ فواد نےہمدرد نونہال اسمبلی کے موضوع “ناکامی افتاد نہیں، استاد ہے” پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ شاہراہِ حیات کبھی سیدھی اور ہموار نہیں ہوتی۔ زندگی کا سفر نشیب و فراز سے گزرتا ہے، جس میں آسائشوں کی مٹھاس بھی شامل ہے اور مشکلات کی تلخیاں بھی، کامیابیاں بھی آتی ہیں اور ناکامیاں بھی، مگر اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان اپنی ناکامیوں سے مایوس ہوئے بغیر آگے بڑھتا رہے۔انہوں نے کہا کہ اگر انسان ناکامی کو اپنی کامیابی کا پہلا زینہ سمجھ لے تو بالآخر وہ کامیابی کی اعلیٰ منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ انہوں نے شاعرِ مشرق غالبؔ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
“مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں”
یہی زندگی کا اصل فلسفہ ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک بچہ پہلی بار چلنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ کئی مرتبہ گرتا ہے، مگر گرتے گرتے آخرکار سنبھلنا اور چلنا سیکھ ہی لیتا ہے۔ اگر وہ گرنے کے خوف سے کوشش ہی ترک کر دے تو کبھی چلنا نہیں سیکھ سکتا۔ یہی اصول زندگی کے ہر شعبے میں لاگو ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار کوشش پر ہے، اگر ناکامی کے بعد ہار نہ مانی جائے تو انجامِ کار ناکامی خود ہار مان لیتی ہے اور انسان کامیاب ہو جاتا ہے۔
قائد حزبِ اختلاف جائشہ احمر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ناکامی زندگی کا ایک اہم تجربہ ہے جو ہمیں آئندہ غلطیوں سے بچنے کا سبق دیتا ہے۔ انہوں نے والدین اور اساتذہ پر زور دیا کہ وہ بچوں کو ناکامی کی صورت میں مایوس کرنے کے بجائے حوصلہ دیں اور یہ سمجھائیں کہ ناکام ہونا کوئی جرم نہیں بلکہ اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے کا اشارہ ہے۔ انہوں نے قرآنِ پاک کی آیت “بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ درس بچوں کو بچپن سے دیا جانا چاہیے۔
تقریب میں نونہال مقررین مریم فاطمہ، عائشہ فواد اور دیگر طلبہ نے بھی موضوع پر پُراثر تقاریر کیں۔ اجلاس کا آغاز محمد یعقوب ملک کی تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا جبکہ نعتِ رسولِ مقبول ﷺ بھی پیش کی گئی۔ اختتام پر طلبہ نے ٹیبلوز، خاکے، ملی نغمے پیش کیے اور ہمدرد پبلک اسکول کے طلبہ نے دعائے سعید پیش کی۔تقریب میں طلبہ، اساتذہ، والدین اور معزز مہمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
ناکامی انسان کی سب سے بڑی معلم ہے۔ سعدیہ راشد






