شہر کے گنجان محلّوں میں گیس سلنڈروں کی دکانیں کسی ٹائم بم کی طرح روزانہ کے حساب سے ٹک ٹک کرتی رہتی ہیں۔ دکھ اور غصے کی بات یہ ہے کہ یہاں ’’ایک‘‘ دھماکہ نہیں ہوتایہ دھماکے تو اب معمول بن چکے ہیں، اور ریاست، انتظامیہ اور متعلقہ ادارے اس خون آشام معمول کے سامنے ایسے خاموش کھڑے ہیں جیسے یہ سب کچھ ان کی ذمہ داری ہی نہ ہو۔ حیرت اس بات پر ہے کہ انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں، لوگ جلتے رہیں، گھر اْجڑتے رہیں مگر متعلقہ اداروں کو نہ کوئی شرم آتی ہے اور نہ ذمے داری کا احساس ہوتا ہے
رہائشی علاقوں میں غیر معیاری سلنڈروں کی فروخت اور ریفِلنگ یوں جاری ہے جیسے یہ کوئی بے ضرر کاروبار ہو۔ گلی کے نکڑ پر موجود یہ دکانیں بغیر کسی لائسنس، بغیر کسی تربیت، بغیر کسی سیفٹی اصول کے گیس بیچتی ہیں، اور لوگ خوف اور لاچاری کی حالت میں انہیں خریدنے پر مجبور ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے خطرناک مواد کی ہینڈلنگ ہو رہی ہے، مگر نہ کبھی چھاپے پڑتے ہیں، نہ مقدمات بنتے ہیں، نہ دکانیں سیل ہوتی ہیں۔ گویا انسانی جان کی قیمت ان کے نزدیک چند سو روپے سے بھی کم ہے۔
سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان دکانوں میں استعمال ہونے والے سلنڈر نہ معیار کے پابند ہیں اور نہ ان پر پریشر ٹیسٹ کی کوئی مہر ہوتی ہے۔ یہ سلنڈر کئی سال پرانے، زنگ آلود، بار بار ریفِل شدہ اور اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ ایسے سلنڈروں کی حالت کاکسی بھی کاریگر یا ماہر کو لمحوں میں اندازہ ہو جاتا ہے، مگر ان دکانداروں کا مقصد صرف اور صرف پیسہ بٹورنا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سلنڈر کب پھٹے گا، کیسے پھٹے گا، کتنا نقصان کرے گامگر ان کے کاروبار پر فرق نہیں پڑتا۔ جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے وہ عوام کی جان، ان کے گھر، ان بچوں کی زندگی جنہیں پتا بھی نہیں کہ یہ کاروبار کس قدر مہلک ہے۔
دکانداروں کی تربیت نہ ہونے کا نقصان بھی بڑا ہے۔ سلنڈر بھرتے وقت جو احتیاطیں عالمی معیار کے مطابق لازمی سمجھی جاتی ہیں، یہاں ان کا نام و نشان تک نہیں۔ نہ آگ بجھانے کا سامان، نہ حفاظتی لباس، نہ مناسب فاصلہ، نہ وینٹی لیشن، نہ زمین سے اونچائی، نہ چنگاری سے بچاؤکچھ بھی نہیں۔ سلنڈر بھرنے کا عمل یوں کیا جاتا ہے جیسے کوئی پانی کی بالٹی بھر رہا ہو۔ اتنی مجرمانہ غفلت شاید ہی کسی اور شعبے میں نظر آئے۔
اصل مجرم صرف دکاندار نہیں، اصل مجرم وہ ادارے ہیں جن کی ذمہ داری تھی کہ یہ دکانیں کبھی رہائشی علاقوں میں کھلنے ہی نہ پاتیں۔ اوگرا، سول ڈیفنس، ضلعی انتظامیہ اور میونسپل ادارے سب اپنی ناکامی کا جیتی جاگتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں عوام کی جان سے کوئی غرض ہی نہیں، یا شاید انہوں نے آنکھیں بند کر لینے میں ہی عافیت سمجھ رکھی ہے۔ چھاپہ صرف اس وقت لگتا ہے جب میڈیا شور مچا دے، بصورتِ دیگر یہ ادارے فائلوں کے نیچے دبے پڑے خوابِ غفلت کے مزے لیتے رہتے ہیں۔
دھماکے اب معمول بن چکے ہیں۔ ہر چند روز بعد کسی نہ کسی محلے میں آگ بھڑکتی ہے، کسی کا گھر جل جاتا ہے، کسی معصوم کا جسم جھلس جاتا ہے۔ لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی لمحوں میں راکھ بن جاتی ہے مگر نظام کے ماتھے پر شکن تک نہیں پڑتی۔ یہ معاشرتی بے حسی کی بدترین مثال ہے کہ عوام تباہ ہو رہے ہیں اور ریاست خاموش ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے حکمرانوں کے نزدیک شہریوں کی زندگی محض ایک عدد ہو، جس کے کم ہونے یا بڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ عوام بھی اپنی مجبوریوں کے سبب خطرہ مول لینے پر مجبور ہیں۔ وہ سستا سلنڈر دیکھ کر خرید لیتے ہیں، بغیر یہ دیکھے کہ وہ معیاری ہے بھی یا نہیں۔ غربت اور مہنگائی نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ لوگ اپنی جان کی قیمت پر بھی چند سو روپے بچانے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس مجبوری کا فائدہ دکاندار اور ناقص سلنڈر بنانے والے بے حس عناصر خوب اٹھاتے ہیں۔
حکومت اگر واقعی چاہتی ہے کہ یہ سلسلہ ختم ہو تو سب سے پہلے رہائشی علاقوں میں سلنڈر کی دکانیں فوراً بند کی جائیں۔ ناقص سلنڈروں کی فروخت اور ریفِلنگ کو سنگین جرم قرار دیا جائے، سخت سزائیں تجویز کی جائیں، اور ہر دکاندار کے لیے لازمی قرار دیا جائے کہ وہ تربیت یافتہ ہو، لائسنس یافتہ ہو، اور اس کی دکان میں معیاری حفاظتی آلات موجود ہوں۔ اس کے علاوہ سلنڈر کے پریشر ٹیسٹ، معیاری سرٹیفکیٹ اور اس کی تاریخ کی باقاعدہ جانچ کا نظام بنایا جائے۔ جب تک قانون سخت نہیں ہوگا، اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا، اور ذمہ داروں کو سزا نہیں ملے گی، تب تک یہ دھماکے ہوتے رہیں گے اور ہم ہر چند دن بعد ایک نئی تباہی کی خبر پڑھتے رہیں گے۔آخر میں پھر واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک دکان، ایک محلے یا ایک حادثے کا نہیں ہے۔ یہ پورے نظام کی ناکامی ہے۔ اگر ریاست نے اب بھی ہوش نہ کیا تو آنے والے دنوں میں ہمارا ہر محلہ بارود خانہ سمجھا جائے گا۔ شہریوں کی جانیں اس بے حسی کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی، اور ہمارے ادارے فائلیں ڈھونڈتے رہیں گے کہ آخر دھماکہ کہاں ہوا تھا۔وقت ہے کہ حکومت لفظوں سے نہیں، عملی اقدامات سے ثابت کرے کہ عوام کی جان واقعی قیمتی ہے۔ ورنہ تاریخ ایک دن ضرور لکھے گی کہ یہاں دھماکے نہیں ہوتے تھے… یہاں دھماکے ’’ہوتے رہتے تھے‘‘ اور ریاست خاموش کھڑی تماشا دیکھتی تھی۔
گیس سلنڈر… ریاستی بے حسی کا بارود خانہ…..شیخ راشد عالم






