کراچی لاوارث سانحہ نیپا : ذمہ دارکون؟

کیا مئیر کراچی مرتضی وہاب کو گٹر کے ڈھکن لگوانے کے لئے بھی اختیارات کی ضرورت ہے؟
مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں،شہریوں کا مطالبہ
کنزیومرواچ رپورٹ
کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال میں نیپا فلائی اوور کے قریب کھلے مین ہول میں گر کر کم عمر بچے کاجاں بحق ہونا ایک ایسا درد ناک واقعہ ہے جسںنے شہریوں کو ایک بار پھر سوالات اٹھانے پر مجبور کردیا ۔ جاں بحق ہونے والے بچے کی لاش کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد لنک نالے سے ملی یہ واقعہ شہری منصوبہ بندی، نگرانی اور بین الادارہ جاتی رابطے کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔شہریوں کا غم وغصہ اس وقت عروج پر ہے وہ اس سانحہ کا ذمہ دار مئیر کراچی مرتضی وہاب اور خاص طور پر پیپلزپارٹی کو سمجھتے ہیں عوام کا ماننا ہے کہ کراچی کو لاوارث کردیا گیا ہے کوئی بھی شہر کی اونر شپ لینے کے لئے تیار نہیں ہے عوام کا مرتضی وہاب سے سوال ہے کہ کیا مئیر کراچی کو گٹر کے ڈھکن لگوانے کے لئے بھی اختیارات کی ضرورت ہے؟
کے ایم سی کی تحقیقاتی رپورٹ، ذمہ داری کس پر؟
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (KMC) نے واقعے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ محکمہ بلدیات کو ارسال کردی ہے، جس میں واضح طور پر **BRT ریڈ لائن منصوبے کی تعمیرات کو حادثے کا بنیادی سبب قرار دیا گیا ہے۔
سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز عمران راجپوت کے مطابق:
بی آر ٹی کے کھدائی کام نے پورے نالے کے نکاسی نظام کو نقصان پہنچایا۔
گٹروں کو بند کرنے کے لیے صرف دو فٹ کے غیر معیاری کورز استعمال کیے گئے۔
ایک مین ہول تعمیراتی عمل کے دوران کھلا چھوڑ دیا گیا، جو حادثے کا براہِ راست سبب بنا۔
بی آر ٹی انتظامیہ نے کام شروع کرنے سے پہلے کے ایم سی کو باقاعدہ اطلاع نہیں دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کور اور طریقہ کار کے ایم سی کے منظور شدہ معیار سے مطابقت نہیں رکھتے۔
نجی اسٹور پر بھی الزام
کے ایم سی رپورٹ میں نجی اسٹور کی انتظامیہ پر بھی غفلت کا الزام عائد کیا گیا ہے، کیونکہ کھلا مین ہول ان کے بالکل سامنے موجود تھا لیکن اسٹور نے بھی حفاظتی اقدام کے طور پر:
مین ہول کے گرد رکاوٹیں نہ لگائیں
نہ ہی متعلقہ حکام کو بروقت اطلاع دی
میئر کراچی کیا کہتے ہیں؟
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا تھا:
اگر میں ذمہ دار جماعت اسلامی کو کہوں تو لوگ ناراض ہوں گے، مگر ذمہ داری جہاں ہے وہاں رکھنی چاہیے۔
میئر کا اشارہ ریڈ لائن منصوبے کی نگرانی اور انتظامی ذمہ داریوں کی طرف تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ:
شہر میں مختلف اداروں کے الگ الگ دائرہ اختیار عوامی مشکلات میں اضافے کا باعث ہیں۔
بی آر ٹی کی کھدائی اور اس کے بعد صفائی کا نظام بہتر طریقے سے منظم نہیں کیا گیا۔
عوام کیا کہہ رہے ہیں؟
سوشل میڈیا اور مقامی رہائشیوں کا ردعمل شدید تھا:
کچھ لوگ بی آر ٹی ریڈ لائن منصوبے کو براہِ راست قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔
کچھ شہری کے ایم سی کی نگرانی کو ناکافی قرار دے رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں نے شہر میں کھلے مین ہولز کے مستقل مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
کچھ لوگ مئیر اور پیپلزبارٹی کی ھکومت کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں
عام شہریوں کے مطابق:
کراچی میں کھلے مین ہول کوئی نئی بات نہیں، مگر آج ایک گھر اْجڑ گیا… اگر وقت پر ڈھکن لگ جاتا تو بچہ بچ جاتا۔’’
بین الادارہ جاتی بدانتظامی ، مسئلے کی جڑ؟
تجزیہ کے مطابق اس واقعے کے پیچھے تین بنیادی عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں:
1. اداروں کے درمیان رابطے کی کمی
ایک ہی سڑک پر کے ایم سی، سندھ گورنمنٹ، بی آر ٹی اتھارٹی، کنٹریکٹرز اور ٹاؤن انتظامیہ،سب کا الگ کنٹرول ہے مگر ہم آہنگی صفر
2. غیر معیاری تعمیراتی طریقہ کار
بڑے شہروں میں مین ہول کو عارضی طور پر کھلا چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہاں معمول بنا ہوا ہے۔
3. نالوں اور نکاسی کا کمزور نظام
شہر بھر میں نالوں کی مرمت اور صفائی جزوقتی کام کے طور پر کی جاتی ہے، جس سے ایسی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے۔
ماہرین شہری منصوبہ بندی کا موقف
شہر کے شہری انجینئرز کے مطابق:

ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے پہلے پورا GIS نقشہ کے ایم سی، واٹر بورڈ، ٹریفک پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ شیئر کرنا ضروری ہوتا ہے۔
مین ہولز کو کھلا چھوڑنا عالمی حفاظتی اصولوں کے خلاف ہے۔
ایسے پروجیکٹس میں ہائی رسک ایریاز کی نشاندہی اور 24 گھنٹے کی نگرانی لازمی ہے۔
آئندہ ایسے حادثات روکنے کیلئے کیا کیا جائے؟
1مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم
شہر میں جاری تمام کھدائی، تعمیرات اور رکاوٹوں کی ریئل ٹائم نگرانی ایک ہی پلیٹ فارم سے ہو۔ دبئی، سنگاپور اور لندن میں یہی نظام استعمال ہوتا ہے۔
2سخت حفاظتی پروٹوکول
کھلے مین ہول کے گرد کم از کم 4 فٹ اونچی بیریئر
رات کے وقت روشن لائنز
پیلا یا سرخ حفاظتی ٹیپ
CCTV نگرانی

3.تمام اداروں کے درمیان قانونی معاہدہ

ہر ترقیاتی منصوبے سے پہلے ایک MoU بنایا جائے جس میں یہ طے ہو:

* کس نے کون سی جگہ کھودی؟
* کب تک کھلی رہے گی؟
* کس ادارے کو اطلاع دینا لازمی ہے؟
* ذمہ داری کس کی ہوگی؟

4. غیر معیاری کورز کے استعمال پر پابندی

صرف انجینئرنگ سرٹیفائیڈ ڈھکن استعمال ہوں۔ زیادہ ٹریفک والے علاقوں میں *کاسٹ آئرن ڈھکن* لازمی ہوں۔

5. عوامی آگاہی مہم

اگر کسی علاقے میں مین ہول کھولا جا رہا ہو تو:

* علاقے کے واٹس ایپ گروپس
* مقامی یونین کونسل
* ٹیلی فون ایلرٹ سسٹم

کے ذریعے اطلاع دی جائے۔
نیپا فلائی اوور کا سانحہ ایک بار پھر کراچی کے شہری انتظام میں موجود دائمی خامیوں کو سامنے لاتا ہے۔ ایک بے گناہ بچے کی جان چلی گئی، مگر ذمہ داری کا تعین اور اصلاحی اقدامات وقت کی سب سے اہم ضرورت ہیں۔ جب تک شہر میں اداروں کے درمیان واضح رابطہ، سخت حفاظتی طریقہ کار اور معیار پر مبنی تعمیرات نہیں ہوں گی۔ایسے حادثات دوبارہ ہوتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں