ٹیکس نظام، معاشی اصلاحات اور ریاست کی سمت،،،،،،شیخ راشد عالم

وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کی حالیہ پریس کانفرنس نے ایک بار پھر قومی معیشت کی بنیادی خرابیوں کو نمایاں کر دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ 9 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے ساتھ ملک نہیں چل سکتا، دراصل برسوں سے جاری مالیاتی تضادات کا نچوڑ ہے۔ ریاست کی مالی سکت کا اندازہ قومی آمدن سے لگایا جاتا ہے اور جب ایک 25 کروڑ آبادی کا ملک محض 9 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی پر گزارہ کر رہا ہو تو اس کا نتیجہ بجٹ خسارے، مہنگائی، قرضوں اور کمزور معاشی ڈھانچے کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
ٹیکس کا بحران،مسئلہ کہاں ہے؟
پاکستان کی ٹیکس پالیسیوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ ٹیکسوں کی شرح کم ہے بلکہ اصل خرابی ٹیکس نیٹ کے انتہائی تنگ ہونے میں ہے۔ ہمارے ملک میں رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد آج بھی قابلِ رحم ہے۔ آمدن کا بڑا حصہ چند مخصوص سیکٹرز سے لیا جاتا ہے جبکہ بڑی تعداد یا تو ٹیکس ہی نہیں دیتی یا اپنی اصل آمدن چھپا لیتی ہے۔ وزیر خزانہ نے درست کہا کہ اگر ریاست نے پائیدار ترقی کرنی ہے تو اسے ٹیکس بنیاد کو بڑھانا ہی پڑے گا، خواہ اس کے لیے کتنی ہی مخالفت کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔
سبسڈی میں کرپشن؛اصل نقب یہاں لگتی ہے
وزیر خزانہ نے ایک دلچسپ اور اہم جملہ کہا کہ مسئلہ ملازمین کا نہیں بلکہ سبسڈی میں ہونے والی کرپشن کا ہے۔ پاکستان کی بہت سی معاشی بیماریوں کی جڑ یہی ہے۔ ہر سال کھربوں روپے کی سبسڈیز منظور کی جاتی ہیں، مگر ان کا بڑا حصہ ہدف تک پہنچنے کے بجائے مخصوص گروہوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ توانائی، گندم، چینی، کھاد اور پیٹرولیم سبسڈی میں جو بے ضابطگیاں ہوتی رہی ہیں، وہ نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ مسابقتی معیشت کی بنیاد بھی کمزور کرتی ہیں۔
اصلاحات کی بات تو ہر حکومت کرتی ہے مگر یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سبسڈی کے نام پر ایک طاقتور لابی دہائیوں سے نظام کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ اس ڈھانچے کو بدلنا آسان نہیں، مگر اگر حکومت واقعی بدعنوانی کے ان مراکز کو نشانہ بنانے میں سنجیدہ ہے تو یہ اقدام معیشت کے لیے بڑی خبر ہوگی۔
آئی ایم ایف معاہدہ،ضرورت یا مجبوری؟
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ طے پانے کا اعلان یقیناً سرمایہ کاروں اور مارکیٹ کے لیے مثبت اشارہ ہے۔ تاہم یہ بات بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے ساتھ سخت شرائط لازمی آتی ہیں۔ ٹیکس بڑھانے، سبسڈی کم کرنے اور بجلی و گیس کی قیمتیں ایڈجسٹ کرنے جیسے اقدامات عام شہری کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔

یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ موجودہ معاشی حالات میں آئی ایم ایف کی مدد ناگزیر تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم، درآمدی بل بلند اور قرض ادائیگیوں کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔ ایسے ماحول میں بیرونی فنانسنگ کے بغیر معاشی پہیہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا تھا۔ لیکن آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد سیاسی طور پر ایک مشکل مرحلہ ہوگا جس کا سب سے بڑا امتحان عام شہری کی برداشت ہے۔
ریکوڈک،امید کا نیا باب؟
پریس کانفرنس کا سب سے حوصلہ افزا حصہ ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے دیا گیا بیان تھا۔ یہ منصوبہ اپنی نوعیت میں بے حد اہم ہے کیونکہ اس میں تانبے اور سونے کے عالمی معیار کے ذخائر موجود ہیں۔ یو ایس ایگزم بینک کا دوبارہ فنانسنگ میں شامل ہونا اس بات کی علامت ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ایک بار پھر پاکستان کے بڑے منصوبوں پر اعتماد ظاہر کر رہے ہیں۔
ریکوڈک ایک طویل المدت منصوبہ ہے، اس کے ثمرات فوری نہیں مل سکیں گے۔ مگر اگر اسے شفافیت اور عالمی معیار کے مطابق مکمل کیا گیا تو یہ واقعی پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے اور مستقبل میں برآمدات کے نئے راستے کھول سکتا ہے۔
بیرونی کھاتوں کا توازن،معیشت کی ریڑھ کی ہڈی
محمد اورنگزیب نے درست نشاندہی کی کہ ادائیگیوں کا توازن اور کرنٹ اکاؤنٹ کسی بھی معیشت کی پائیداری میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا شکار رہا ہے، جس کی بڑی وجہ درآمدات کا دباؤ اور برآمدات کی محدود ساخت ہے۔ جب تک برآمدی صنعتوں کو سہولتیں نہیں ملیں گی اور روایتی مصنوعات سے ہٹ کر نئی منڈیاں اور نئے شعبے نہیں بنائے جائیں گے، اس مسئلے کا حل ممکن نہیں۔
ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج کا خاتمہ دراصل اسی سمت میں ایک قدم سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر برآمد کنندگان کو مسابقت کے مواقع ملتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف زرمبادلہ بڑھے گا بلکہ روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہوگا۔
NFC کا آئندہ اجلاس،ایک پیچیدہ مرحلہ
وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ ہفتے نیشنل فنانس کمیشن (NFC) کا اجلاس ہوگا۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب وفاق پہلے ہی مالیاتی دباؤ کا شکار ہے۔ موجودہ NFC ایوارڈ کے تحت قومی وسائل کا بڑا حصہ صوبوں کو جاتا ہے جبکہ دفاع، قرض ادائیگی اور انتظامی اخراجات وفاق کے ذمے رہ جاتے ہیں۔
یہ ایک حساس بحث ہے کہ آیا موجودہ فارمولا بدلنا چاہیے یا نہیں، مگر یہ حقیقت واضح ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی ہم آہنگی کے بغیر کوئی بھی اصلاحاتی ایجنڈا کامیاب نہیں ہوسکتا۔
سمت درست، سفر کٹھن
وزیر خزانہ کی گفتگو میں دو چیزیں نمایاں تھیں—ایک حقیقت پسندی اور دوسرا اصلاحات کا عزم۔ پاکستان کی معیشت کو آج ایسے ہی رویے کی ضرورت ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی قیادت اس مشکل مگر لازمی راستے پر حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی؟
اقتصادی استحکام صرف بیانات سے نہیں آتا۔ اس کے لیے عملی اقدامات، شفافیت، سخت فیصلے اور سب سے اہم پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کی معاشی کہانی ایک ایسے چکر میں پھنسی ہوئی ہے جس میں ہر چند سال بعد بحران پھر سر اٹھا لیتا ہے۔ اس چکر کو توڑنے کے لیے ٹیکس نیٹ میں اضافہ، سبسڈی کے غلط استعمال کا خاتمہ، برآمدات کا فروغ اور بجلی کے شعبے کی اصلاحات ناگزیر ہیں۔
اگر حکومت اپنے اعلان کردہ اصلاحاتی ایجنڈے پر بلا خوف اور بلا تعطل آگے بڑھتی ہے تو آنے والے برسوں میں پاکستان ایک زیادہ مضبوط، زیادہ خودمختار اور زیادہ متوازن معیشت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ لیکن اگر اصلاحات سیاسی نعرے بن کر رہ گئیں تو پھر ایک اور بحران ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں