سونے کی درآمد و برآمد پر پابندی کا خاتمہ….شیخ راشد عالم

پاکستان نے معاشی مشکلات، زرِ مبادلہ کے دباؤ اور غیر قانونی تجارت کے بڑھتے ہوئے خدشات کے درمیان بالآخر وہ فیصلہ کر لیا ہے جس کا انتظار کئی ماہ سے صنعت اور مارکیٹ کے تمام اسٹیک ہولڈرز کر رہے تھے۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وزارت تجارت نے سونے کی درآمد اور برآمد پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے وہ ایس آر او بھی بحال کر دیا ہے جو سونے کی عالمی تجارت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے جاری کیا گیا تھا مگر مئی 2025 میں 60 دن کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ جہاں ایک طرف جیولری ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے ایک بڑا ریلیف ہے، وہیں پاکستان کے تجارتی توازن، ریگولیٹری نظام اور مالیاتی نظم و ضبط کے لیے بھی اہم نتائج رکھتا ہے۔
پس منظر ، پابندی کیوں لگائی گئی؟
سونے کی تجارت پاکستان میں ہمیشہ سے حساس تصور کی جاتی ہے، کیونکہ یہ نہ صرف قیمتی دھات ہے بلکہ غیر قانونی تجارت اور پیسہ باہر منتقل کرنے کا ایک محفوظ ذریعہ بھی سمجھی جاتی رہی ہے۔ وزارتِ تجارت کے مطابق مئی 2025 میں سونے کی اسمگلنگ کے شبہات اور نظام میں بے ضابطگیوں کے باعث اس کی درآمد اور برآمد کو عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ کچھ مخصوص عناصر سونے کے درآمدی نظام کو غلط استعمال کرکے منظم اسمگلنگ میں ملوث تھے، جس سے نہ صرف ملکی خزانے کو نقصان پہنچ رہا تھا بلکہ قانونی درآمدکنندگان کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی تھی۔
گزشتہ چند مہینوں میں، متعلقہ اداروں کی جانب سے نگرانی سخت ہونے کے باعث سونے کی اسمگلنگ سے متعلق کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی۔ اس کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ پابندی کا مقصد پورا ہو چکا ہے، اس لیے تجارت کو دوبارہ کھول دینا چاہیے۔
اعداد و شمار کی روشنی میں صورتحال
سونے کی تجارت پر پابندی کا اثر براہِ راست ملک کی درآمدات پر ظاہر ہوا۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق:
جون اور جولائی میں بالکل بھی سونا درآمد نہیں ہوا۔
مئی 2025 میں صرف 9 کلوگرام سونا درآمد ہوا جس کی مالیت تقریباً 9.27 لاکھ ڈالر تھی۔
اس کے برعکس جولائی 2024 میں 22 لاکھ ڈالر مالیت کا سونا درآمد ہوا تھا۔
یہ واضح فرق اس بات کا ثبوت ہے کہ پابندی نے درآمدی سرگرمی کو تقریباً منجمد کر دیا تھا۔ ایسے حالات میں جیولری انڈسٹری، خاص طور پر ایکسپورٹ انڈسٹری، شدید دباؤ کا شکار رہی۔

جیولری ایکسپورٹ سیکٹر کی مشکلات
ایف پی سی سی آئی کے صدر عاطف اکرام شیخ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط میں لکھا تھا کہ ایس آر او 760 کی معطلی نے برآمدی صنعت کو براہِ راست نقصان پہنچایا ہے۔
ان کے مطابق کئی برآمدکنندگان نے اپنے بیرونی خریداروں کے ساتھ قانونی معاہدوں کے تحت خام سونا وصول کر کے جیولری تیار کر لی تھی، مگر اچانک پابندی لگنے سے نہ صرف سپلائی چین ٹوٹ گئی بلکہ عالمی خریداروں کا اعتماد بھی شدید متاثر ہوا۔
یہ صورتحال پاکستان کے لیے انتہائی تشویش ناک تھی کیونکہ جیولری کی برآمدات نہ صرف زرِ مبادلہ کا ذریعہ ہیں بلکہ ہزاروں کاریگروں اور چھوٹے صنعت کاروں کا روزگار بھی اس شعبے سے وابستہ ہے۔
حکومتی فریم ورک ، شفافیت کی طرف قدم
حکومت نے پابندی ختم کرنے کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ قیمتی دھاتوں اور زیورات کی درآمد و برآمد کا موجودہ فریم ورک برقرار رہے گا، البتہ اس میں مزید شفافیت اور خودکار نظام شامل کیے جائیں گے۔
اس کا مقصد:
امپورٹ و ایکسپورٹ کے نظام میں انسانی مداخلت کم کرنا
دستاویزات کو ڈیجیٹل کرنا
اسمگلنگ کے راستوں کی نشاندہی
بینکنگ اور کلیئرنس سسٹم کو مضبوط بنانا
پاکستان میں روایتی طور پر سونے کی تجارت کاغذی کارروائیوں پر منحصر رہی ہے، جس میں بے ضابطگیوں کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ فریم ورک کی بہتری سے قانونی تجارت کو تحفظ ملے گا اور غیر قانونی سرگرمیوں کا راستہ تنگ ہو گا۔
اقتصادی تجزیہ ، پابندی ختم کرنے کے فوائد اور خدشات
فوائد:
برآمدات میں اضافہ:
جیولری ایکسپورٹ انڈسٹری دوبارہ فعال ہو جائے گی، جو پاکستان کے زرِ مبادلہ ذخائر میں بہتری کا باعث بن سکتی ہے۔
بازار میں اعتماد کی بحالی:
کاروباری ماحول میں استحکام اور پالیسیوں کی تسلسل سے بین الاقوامی خریداروں کا بھروسہ بڑھتا ہے۔
روزگار کے مواقع:
پابندی سے متاثر ہونے والے ہزاروں کاریگر دوبارہ کام میں مشغول ہو سکیں گے۔
قانونی تجارت کا فروغ:
اگر شفافیت بڑھائی گئی تو عوامی اور سرکاری سطح پر اعتماد بڑھے گا۔
خدشات:
اسمگلنگ کے خطرات:
اگر مؤثر نگرانی نہ رہی تو دوبارہ غیر قانونی تجارت کے راستے کھل سکتے ہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ:
سونا ایک مہنگی امپورٹ ہے، اگر درآمد زیادہ ہوئی تو زرِ مبادلہ ذخائر پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
قیمتوں میں اتار چڑھاؤ:
مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمتیں پہلے ہی عالمی مارکیٹ کے اثرات سے جڑی ہوتی ہیں۔ درآمد کھلنے سے قیمتیں مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہیں۔
آگے کا راستہ ، کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
حکومت کا پابندی اٹھانا ایک درست قدم ہے، مگر اس کے ساتھ چند بنیادی اقدامات ضروری ہیں:
ڈیجیٹل ٹریکنگ سسٹم:
ہر درآمدی شپمنٹ کا ریکارڈ بلاک چین یا مرکزی ڈیٹا بیس سے منسلک کیا جائے تاکہ کسی بھی مرحلے پر ڈیٹا میں چھیڑ چھاڑ نہ ہو سکے۔
بین الاقوامی معیار کے مطابق ریگولیشن:
دبئی، ترکی اور ملائیشیا جیسے ممالک کی طرح سونے کی تجارت کو جدید قوانین کے ذریعے ریگولیٹ کیا جائے۔
اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائیاں:
سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی اور کسٹمز کے درمیان مربوط رابطہ ناگزیر ہے۔
صنعتی مشاورت:
ہر پالیسی سے قبل جیولری ایکسپورٹرز اور امپورٹرز کا مکمل مشورہ شامل ہو تاکہ پالیسیوں کے منفی اثرات نہ ہوں۔
سونے کی درآمد اور برآمد پر پابندی ختم ہونا پاکستان کی اقتصادی سمت میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔ یہ فیصلہ وقتی طور پر معیشت کو ریلیف دے گا، برآمدی شعبے کو سہارا دے گا اور صنعتی سرگرمیاں بحال کرے گا۔ تاہم اصل چیلنج شفافیت، نگرانی اور عملی نفاذ کا ہے۔ اگر حکومت اپنے اعلان کردہ فریم ورک میں حقیقی بہتری لا سکی تو یہ فیصلہ نہ صرف سونے کی تجارت کے لیے بلکہ پاکستان کی مجموعی معاشی ساکھ کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں