کنیکٹیکٹ کی خاموشی میں کراچی کی روح کا سْر، شکیل حیدر سے ایک ملاقات،حمیرا گل تشنہ

ہوا میں خنکی بڑھی ہوئی تھی جنگلی پھولوں اور گیلے پتوں کی بھیگی ہوئی خوشبو پھیلی ہوئی تھی یعنی، کنیکٹیکٹ کی وادی میں موسمِ خزاں کی صبح اپنے عروج کو تھی۔ پرانے بلوط کے درختوں کے جھنڈ تھے جن کے نیچے گھاس پر بکھرے ہوئے پیلے اور نارنجی پتے قالین کا کام دے رہے تھے۔ یہ وہ سکوت تھا جو کراچی کے رہنے والے کے لیے تھوڑی اجنبی شے ہے۔ کراچی، جو ہر لمحہ زندگی کے دھڑکنے کی آواز سے بھرپور ہوتا ہے۔ کبھی گاڑیوں کے ہارن، سائیکل پر بندھے خالی ڈبوں کی کھنک، اخبار فروشوں کی تو کبھی لوگوں کی للکارنے کی اور سمندر کی ہواؤں میں گھلے ہوئے نمکین پن کی آوازیں۔ اور یہاں … یہاں تو صرف خاموشی تھی۔ ایک گہری، بسیط، اور مقدس خاموشی۔

میں کنیکٹ ٹی کٹ کے برج پورٹ کے سامنے گاڑی کے باہر کھڑی تھی۔ کہ سامنے سے آنے والا جہاز نیویارک سے مسافروں کو لے کر آیا تھا اور انھی مسافروں میں ہمارے مہمان “شکیل حیدر” بھی شامل تھے۔ تھوڑی دیر دیکھا مسافروں کی بھیڑ میں سے ایک شناسا چہرہ نمودار ہوا۔ گلابی رنگت، سفید بال، دراز قد پر سیاہ گرم کوٹ پہنے اردگرد کے ماحول سے لاپراہ دھیمی رفتار میں سامنے سے چلتے ہوئے آ رہے تھے۔ پھر بے فکر انداز میں جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر سگریٹ جلائی اور ہوا میں بکھرتے دھوئیں میں کھو گئے۔ نجانے کیا سوچ رہے تھے یا شاید فضا میں کچھ کھوج رہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر آواز دی تو چونک کر مڑے اور مسکراتے ہوئے بولے”ارے تشنہ، کیسی ہو؟” ہاتھوں میں سگریٹ دبائے شکیل حیدر کے چہرے پر کراچی کی دھوپ کی کہانیاں لکھی تھیں، مگر آنکھوں میں کنیکٹیکٹ کی پر سکون گہرائی سمائی ہوئی تھی۔ مسکراہٹ میں ایک عجب طرح کی نرمی تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، “چلیں؟ تو ہنس کر کہنے لگے، چلو۔۔۔ یہاں کی خاموشی پہلے دن تو بہت بھاری لگتی ہے، پھر اس کے اندر کی موسیقی سنائی دینے لگتی ہے،” انہوں نے کہا۔
یہی وہ جملہ تھا جس نے ہماری بات چیت کا دھارا کھول دیا۔ میں نے پوچھا کہ ایک ایسا شخص جو کراچی کی ہلچل، یا کنکریٹ کے جنگل کہہ لو (جیسا کہ انہوں نے ٹیلی فونک گفتگو میں خود اسے کہا تھا) میں پلا بڑھا، وہ اس یکسانیت اور سکوت میں کیسے ڈھل جاتا اور سکون پاتا ل ہے؟
وہ گاڑی کے شیشے کی دیوار کے پار کہر میں ڈوبے، بکھرتے مناظر دیکھتے ہوئے بولے، “یہ سوال تو میں روز اپنے آپ سے کرتا ہوں۔ دیکھیے، کراچی نے مجھے ‘ریڈیم’ سکھایا۔ وہاں ہر عمارت اپنی کہانی چلاتی ہے، ہر گلی ایک ڈرامہ ہے، ہر چہرہ ایک ناول۔ یہ سب میرے اندر کے آرٹسٹ کے لیے خام مال تھا۔ مگر جب آپ کے پاس بہت زیادہ خام مال ہو تو بعض اوقات ‘شکل’ ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں کی فضا نے مجھے ‘خلاء ‘ دیا۔ اور خلاء کے بغیر کوئی تعمیر، کوئی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔”
اتنی گہری بات سن کر میں حیران رہ گئی۔ یقیناً یہ بات ایک ظاہری نہیں بلکہ باطنی طور پر مکمل شاعر ہی کہہ سکتا ہے اور شاید یہی ایک عالمی فنکار کی پہچان بھی ہوتی ہے۔ اس گفتگو میں ہم “پنیرا بریڈ” ریستوران پہنچ گئے۔ آرڈر دے کر ہم اپنی نشست پر آکر بیٹھے تو بات شاعری کی طرف مڑی تو شکیل مزید جوش میں آ گئے۔ “آرکیٹیکچر اور شاعری دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں ‘خلاء ‘ اور ‘مادے’ کے درمیان کھیلتے ہیں۔ ایک عمارت اینٹوں اور سیمنٹ سے بنتی ہے، مگر اس کی روح میں وہ ‘خلاء ‘ ہے جس میں آپ رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ایک نظم الفاظ سے بنتی ہے، مگر اس کا جادو ان الفاظ کے درمیان کی خاموشی میں ہوتا ہے۔ کراچی نے مجھے الفاظ دیے، اور کنیکٹیکٹ نے مجھے وہ خاموشی سکھائی جس میں وہ الفاظ جیتے ہیں۔”
میں نے پوچھا، “تو کیا آپ خود کو ایک مسافر سمجھتے ہیں یا پھر باشندہ؟”
وہ مسکرائے، “میں ایک ‘پرندہ’ ہوں، جس کے دو پر ہیں۔ ایک پر کراچی کی یادیں ہیں، دوسرا پر امریکا کا نظارہ۔ ایک پر سے میں اڑ نہیں سکتا۔ دونوں کی ضرورت ہے۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ جب بہت برف پڑتی ہے اور درخت بالکل خاموش ہو جاتے ہیں، تو کراچی کے بھرے ہوئے بس اسٹاپوں کی یادیں ایک عجیب سی گرمی فراہم کرتی ہیں۔ اور جب کراچی کی گرمی اور ہجوم دم گھٹنے لگے، تو امریکہ کی وادی کی تصویر میرے دل کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔”
شام کے آخری سورج کی کرنیں ہوٹل کی کھڑکیوں سے چھن کر ہماری نشست تک پھیل رہی تھیں، ہر شے پر سنہری رنگ ڈال رہی تھیں۔ یہ ملاقات محض دو لوگوں کی ملاقات نہیں تھی، بلکہ دو دنیاؤں، دو تخلیقی عملوں کا باہمی سنگم تھی۔ شکیل حیدر اپنے آپ میں ایک ایسی عمارت تھے جو دو مختلف ثقافتی زمینوں پر کھڑی تھی، مگر اس کی بنیادیں مضبوط تھیں۔
رخصت ہوتے وقت، جب ہم وہیں کھڑے ایک پرانے درخت کے ساتھ تصویر لے رہے تھے میں درخت کی جڑوں کو دیکھنے لگی جو زمین کی تہوں میں اترتی چلی گئی تھیں، مجھے احساس ہوا کہ شکیل حیدر کی طاقت بھی یہی ہے۔ ان کی جڑیں کراچی کی گہرائیوں میں ہیں، مگر ان کی سوچ کی شاخیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اور ان دونوں کے درمیان ہی ان کی تخلیقی توانائی کا بہاؤ ہے۔
ان کو واپس کنیکٹیکٹ کے برج پورٹ پر میں چھوڑنے گئی۔ وہ بس مجھ سے ملنے آئے تھے۔ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی جس میں نہ تو اجنبیت کا کوئی احساس تھا اور نہ رسمی تعارف شامل رہا۔ شکیل حیدر کی شخصیت خود ایک شاعری تھی، ایک ایسی عمارت تھی جس میں رہنے والے خیالات پر سکون تھے، اور ایک ایسی نظم تھی جس کی لَے دل کے براعظم کی دھڑکن تھی۔ میں نے سوچا، شاید جدید دور کے صوفی ایسے ہی ہوتے ہیں جو خانقاہ میں نہیں، بلکہ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں رہتے ہیں۔ جو اپنے اندر کی دنیا کو سنتا اور اپنے باہر کی دنیا کو سمجھتا ہے۔ اور ان دونوں کے ملن سے ایک نیا جہان تعمیر کرتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں