پاکستان افریقہ معاشی تعلقات نئی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں….. شیخ راشد عالم

براعظم افریقہ جو کبھی بھوک، افلاس اور غربت کی جیتی جاگتی تصویر سمجھا جاتا تھا، آج تیز رفتار ترقی اور مسلسل معاشی تبدیلیوں کے باعث دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ براعظم 54 ممالک، ایک ارب چالیس کروڑ آبادی، اور تقریباً تین کھرب ڈالر کے جی ڈی پی کے ساتھ عالمی معیشت کا ایک اہم کرداربن چکا ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی، زرخیز زمین، کان کنی، توانائی کے وسائل اور تیزی سے ترقی کرتی معیشت نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو اس براعظم کی طرف متوجہ کر لیا ہے۔
براعظم افریقہ کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے استنبول میں منعقدہ ترک افریقہ بزنس فورم میں بتایا کہ افریقہ کے ساتھ ترکی کی تجارت کا حجم 2003 میں 5.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2024 میں 40 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ترک تعمیراتی کمپنیوں نے افریقہ میں دو ہزار سے زیادہ منصوبے مکمل کیے ہیں جن کی مجموعی مالیت 97 ارب ڈالر سے زائد ہے۔
چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت افریقہ میں بندرگاہوں، ریلوے لائنوں، شاہراہوں، توانائی کے منصوبوں اور صنعتی زونز میں 300 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کی ہے۔ ایتھوپیا، کینیا، نائیجیریا اور مصر جیسے ممالک میں چینی انجینئرز سینکڑوں منصوبے مکمل کر چکے ہیں۔ بیجنگ نے افریقہ کو قرضوں، تکنیکی معاونت اور انفراسٹرکچر کی فراہمی کے ذریعے اپنی مضبوط شراکت داری کا مرکز بنایا ہے۔
بھارت نے افریقہ کے ساتھ تاریخی تعلقات کو جدید انداز میں استوار کیا ہے۔ نئی دہلی نے تعلیم، آئی ٹی، صحت، فارماسیوٹیکل اور قابلِ تجدید توانائی کے شعبوں میں نمایاں سرمایہ کاری کی ہے۔ بھارتی کمپنیاں کینیا، جنوبی افریقہ اور نائیجیریا میں موبائل بینکنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دواؤں کی صنعت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
یورپی یونین افریقہ کو اپنی قریب ترین ابھرتی ہوئی مارکیٹ قرار دیتی ہے۔ یورپ نے توانائی، زراعت، گرین انرجی اور صنعتی زونز کے قیام میں بڑے پیمانے پر شراکت داری کی ہے۔ یورپی سرمایہ کار افریقہ میں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کر رہے ہیں، جس سے مقامی
معیشتوں کو استحکام حاصل ہو رہا ہے۔
ایسے عالمی ماحول میں پاکستان نے بھی افریقہ کی بڑھتی ہوئی مارکیٹ کی جانب توجہ مبذول کی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے چند سال قبل Policy Africa Look کا آغاز کیا جس کا مقصد براعظم افریقہ کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے نئے راستے کھولنا ہے۔ اسی سلسلے میں پاکستان افریقہ اکنامک کونسل تشکیل دی جا رہی ہے جو پاکستان اور افریقہ کے درمیان ایک مضبوط پل کا کردار ادا کرے گی۔ یہ کونسل ٹیکنالوجی، تعلیم و تربیت، صنعت، روزگار اور تجارت کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہوگی۔ منصوبے کے تحت پچاس ہزار افراد کی تربیت، ایک لاکھ ملازمتوں کے مواقع، اور دو ارب ڈالر کی پاکستانی سرمایہ کاری کو عملی شکل دی جائے گی۔
پاکستانی برآمدات اب جنوبی افریقہ، کینیا، نائیجیریا، مصر اور تنزانیہ جیسے ممالک تک پھیل چکی ہیں۔ ان میں چاول، ٹیکسٹائل، کھیلوں کا سامان، سرجیکل آلات اور ادویات نمایاں ہیں۔ پاکستانی کمپنیاں زراعت، فوڈ پراسیسنگ، تعمیرات، توانائی اور کان کنی کے شعبوں میں شمولیت کی تیاری کر رہی ہیں۔
افریقہ اس وقت انفراسٹرکچر اور توانائی کے کئی عظیم منصوبوں کا مرکز ہے، جن میں مشرقی افریقہ ریلوے نیٹ ورک، مغربی افریقہ پاور گرڈ، اور شمالی افریقہ کے شمسی توانائی کے میگا پراجیکٹس شامل ہیں۔ ان منصوبوں میں پاکستانی انجینئرنگ، کنسٹرکشن اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے شمولیت کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔
افریقہ تیزی سے عالمی سرمایہ کاری، تجارت اور ترقی کا نیا محور بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی افرادی قوت، صنعتی مہارت اور کاروباری تجربے کے ذریعے اس ابھرتے ہوئے براعظم میں فعال کردار ادا کرے۔ پاکستان افریقہ اکنامک کونسل، نجی شعبے کی شمولیت، اور ‘‘ Policy Africa Look ’’ کے عملی اقدامات سے آنے والے برسوں میں پاکستان اور افریقہ کے تعلقات نئی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں