میں شنگھائی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ہال میں کھڑی تھی، کھڑکی کے اُس پار جگمگاتی روشنیوں کا سمندر پھیلا ہوا تھا۔ اکتوبر کی ٹھنڈی ہوا جیسے میرے حواس کو ہلکے ہلکے تھپکیاں دے رہی تھی۔ دل میں ایک عجب سی گدگدی تھی ۔جیسے میں کسی نئے جہاں میں قدم رکھنے والی ہوں۔ میں، ٹیکنالوجی کے اس دیو ہیکل شہر میں یہ دیکھ رہی تھی کہ آخر چین نے اپنی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کو کس طرح دنیا کے سینے پر نقش کیا ہے۔
ٹیکسی نے جب شنگھائی کے جدید ہائی وے پر رفتار پکڑی، تو دونوں اطراف بلند و بالا عمارتیں ایسے اٹھتی چلی گئیں جیسے لوہے کے درخت آسمان کو چھونے نکلے ہوں۔ میں نے سوچا، یہی وہ سرزمین ہے جہاں “China Silicon 2030” کے خواب حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔
یہ کوئی عام منصوبہ نہیں، بلکہ ایک ایسا قومی عزم ہے جس نے پورے ملک کو ایک سمت میں کھڑا کر دیا ہے۔ “چائنا سلیکون 2030” دراصل اس خواب کا نام ہے جس کے تحت چین نے فیصلہ کیا کہ اب وہ سیمی کنڈکٹرز کے لیے کسی پر انحصار نہیں کرے گا، بلکہ اپنی چپ اپنی سرزمین پر بنائے گا ۔ تیزی سے، بہتر انداز میں، اور دنیا کو پیچھے چھوڑ کر۔ یہ منصوبہ اُس وقت جنم لینے لگا جب عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کی رسہ کشی تیز ہوئی، اور غیر ملکی پابندیوں نے چین کو یاد دلایا کہ ٹیکنالوجی میں خودمختاری ہی اصل طاقت ہے۔ اسی ضرورت نے اسے ایک بڑے وژن میں ڈھالا ۔ ایسا وژن جو فیکٹریوں سے آگے، قوم کے مزاج میں سرایت کر گیا۔
اس کے مقاصد واضح ہیں ۔ جو خود کفالت، عالمی قیادت، اور ایک ایسا صنعتی ڈھانچہ جو آنے والے برسوں میں نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کے ٹیکنالوجی نقشے کو بدل دے۔ یہ صرف چپس بنانے کا منصوبہ نہیں ، یہ ایک سوچ کی آزادی کا اعلان ہے
اگلی صبح میں شنگھائی انوویشن زون پہنچی۔ اندر داخل ہوتے ہی محسوس ہوا جیسے میں کسی مستقبل کے شہر میں آ گئی ہوں۔ ہوا میں ہلکی سی دھند تھی، مگر عمارتوں کے شیشوں سے جھلکتی نیلی روشنی سب کچھ شفاف بنا رہی تھی۔ یہاں سیمی کنڈکٹر فاؤنڈریز کے اندر جانے کے لیے مجھے خاص لباس پہننا پڑا سفید اوور آل، دستانے اور ماسک۔ اندر کا منظر نقرئ روشنیوں سے منور تھا اور ایسی صفائی جو روح تک سرایت کر جائے۔
میرے ساتھ ایک چینی انجینئر تھی، مس لِی۔ وہ آہستہ آہستہ بولتی تھی، جیسے کسی مقدس علم کے اسرار کھول رہی ہو۔ اُس نے بتایا کہ چین نے “China Silicon 2030” پروگرام کے تحت 3 نینو میٹر (3nm) ٹیکنالوجی پر مبنی چپس کی مقامی تیاری شروع کر دی ہے۔ شنگھائی اور شینزن میں فیکٹریاں دن رات جاگتی ہیں ۔ایک مشین بند ہو تو دوسری سانس لیتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ “ہم وقت سے دوڑ لگانے نکلے ہیں، کیونکہ ٹیکنالوجی میں جو پیچھے رہ گیا، وہ ماضی بن جاتا ہے۔”
میں نے دیکھا ۔ روبوٹ بازو دھیرے دھیرے حرکت کر رہے تھے، جیسے کسی کلاسیکل رقص کی مشق ہو رہی ہو۔ روشنیوں کی جھلملاہٹ میں سرور کا سا عالم تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے احساس ہوا کہ ٹیکنالوجی صرف تاروں اور مشینوں کا کھیل نہیں، بلکہ ایک خواب ہے ۔محنت، نظم و ضبط اور عزم کا خواب۔
یہاں ایک کونے میں ایک بورڈ لگا تھا
“2025: Self-reliance — 2030: Leadership”
یہ صرف نعرہ نہیں تھا، ایک قوم کا منشور تھا۔ امریکا کی پابندیوں نے جس ٹیکنالوجی کی رسائی محدود کی، چین نے اسی کو اپنی سب سے بڑی تحریک بنا لیا۔ یہاں 200 ارب یوآن کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ یہ صرف ایک صنعتی منصوبہ نہیں بلکہ قومی وقار کا استعارہ بن چکا ہے۔
میں نے کراچی کے اپنے گلی کوچوں کو یاد کیا ۔ وہی دھندلی شامیں، وہی بے ترتیب شور اور سوچا، کاش ہمارے ہاں بھی ایسا کوئی خواب اجتماعی جذبے میں ڈھل پاتا۔ میرے سامنے چین تھا۔ایک ایسی قوم جس نے خواب دیکھا، اور پھر اُسے بُن کر دھرتی پر اتار دیا۔
واپسی پر گاڑی جب شہر کی سڑکوں پر واپس اتر رہی تھی، تو شنگھائی کی روشنیاں میرے ذہن میں نقش ہو چکی تھیں۔ مجھے لگا جیسے یہ سفر صرف ایک ملک کا نہیں، ایک مستقبل کا سفر تھا۔
اگلی صبح ابھی مکمل بیدار نہیں ہوئی تھی۔ شنگھائی کے آسمان پر ہلکی ہلکی دھند تیر رہی تھی جیسے کسی مصور نے نیلے کینوس پر دودھیا رنگ ہلکے ہاتھ سے پھیر دیا ہو۔ میں ہوٹل کی بالکونی میں کھڑی چائے کی چسکیاں لے رہی تھی اور ذہن میں پچھلے روز کا منظر گھوم رہا تھا ۔وہ سیمی کنڈکٹر فاؤنڈری کی جگمگاتی دنیا، وہ مشینوں کا رقص، وہ خوابوں کی مشقت کا شور۔ لیکن آج میرا سفر کسی اور سمت تھا، اور یہ سمت ٹیکنالوجی کی شاید سب سے گہری اور پراسرار وادی کوانٹم کمپیوٹنگ کی طرف جا رہی تھی۔
گاڑی جب ہِفے (Hefei) کی طرف رواں ہوئی تو راستے میں خنکی تھوڑی تیز ہو گئی۔ درختوں کے پتوں پر اوس کے قطرے چمک رہے تھے۔ مجھے لگا جیسے کوئی صبح خود سونے کے زیورات پہن کر میرے استقبال کو نکلی ہو۔ یہ وہی شہر ہے جہاں “Jiuzhang 4” نامی کوانٹم پروسیسر کی لیب واقع ہے ۔ ایک ایسا مقام جسے کئی لوگ “چین کا خاموش دماغ” کہتے ہیں۔
لیب کے باہر سکیورٹی نہایت سخت تھی۔ جب میں اندر داخل ہوئی تو ہوا میں ٹھنڈک کے ساتھ ایک سنجیدگی بسی ہوئی تھی۔ سفید لبادوں میں ملبوس سائنسدان، کمپیوٹر اسکرینوں پر جھکے ایسے تھے جیسے کسی مقدس کتاب کا مطالعہ کر رہے ہوں۔ میرے ساتھ ایک نوجوان محقق تھی، ژاؤ مین۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی ۔جیسے کوئی اپنی کامیابی کو لفظوں میں نہیں، نگاہوں میں سمیٹے ہوئے ہو۔
ژاؤ نے دھیرے سے کہا، “Jiuzhang 4… ہماری چوتھی نسل کا کوانٹم پروسیسر ہے۔ یہ کلاسیکل سپر کمپیوٹر سے کئی گنا تیز حساب کر سکتا ہے۔” اُس کی آواز میں غرور نہیں، بلکہ یقین بولتا تھا۔ میں نے شیشے کی دیوار کے پار دیکھا ۔ ایک بڑی سی شفاف چیمبر میں چمکتی ہوئی سنہری مشین جیسے کسی مستقبل کے زمانے سے لا کر رکھی گئی ہو۔
یہ پروسیسر کوانٹم لائٹ فوٹونز کے اصولوں پر کام کرتا ہے، اور پیچیدہ ریاضیاتی حسابات کو لمحوں میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ژاؤ بتا رہی تھی کہ اسے کرپٹوگرافی، مصنوعی ذہانت اور مالیاتی ماڈلز میں انقلاب لانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ کے بعد چین نے اب اس میدان میں عالمی قیادت کا دعویٰ کر دیا ہے۔
لیب کے اندر ایک کمرے کی دیوار پر ایک قول آویزاں تھا
“Speed is power, and knowledge is sovereignty.”
(رفتار طاقت ہے، اور علم خودمختاری۔)
میں نے سوچا یہی فلسفہ ہے جو اس قوم کے ہر خواب میں دھڑکتا ہے۔ جہاں ہمارا خطہ ابھی انٹرنیٹ کی رفتار پر الجھا ہے، یہاں مستقبل کے کمپیوٹرز پر بحث ہو رہی ہے۔
میں نے ژاؤ سے پوچھا، “یہ سب کچھ کتنی دیر میں ممکن ہوا؟”
اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “صرف پندرہ سال… مگر اصل چیز وقت نہیں، ارادہ ہوتا ہے۔”
واپسی پر میں نے گاڑی کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ہِفے کے پرسکون درختوں کے بیچ ہلکی دھند میں یہ شہر کسی علمی داستان کا حصہ لگ رہا تھا۔
شنگھائی لوٹتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ میرا یہ سفر صرف ایک سیاح کا نہیں رہا۔ میں ایک ایسی دنیا کی شاہد بن رہی تھی جہاں علم، محنت اور خواب مل کر مستقبل تراشتے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا، یہ تو ابھی آغاز ہے۔
شنگھائی واپس آئے ابھی ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ دل میں ایک نئی بےچینی سر اٹھانے لگی ۔جیسے کوئی نیا منظر میری آنکھوں کے سامنے خود کو ظاہر کرنے کو بے تاب ہو۔ ٹیکنالوجی کا یہ ملک مجھے روز ایک نئی پرت دکھا رہا تھا، ایک نئی کہانی سنا رہا تھا۔ آج میرا پڑاؤ تھا ہانگژو (Hangzhou) وہ شہر جسے اکثر لوگ “ڈیجیٹل چین کا دل” کہتے ہیں۔
صبح سویرے ٹرین اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے ہی ٹھنڈی ہوا نے گالوں کو چھو کر جیسے خوش آمدید کہا۔ تیز رفتار بلٹ ٹرین نے شنگھائی سے ہانگژو تک کا سفر یوں کاٹ لیا جیسے کوئی خیال دماغ میں سے گزر جائے۔ کھڑکی کے پار دھند میں لپٹے پہاڑ اور جدید عمارتیں ایک ساتھ دکھائی دے رہے تھے — جیسے ماضی اور مستقبل ایک ہی تصویر میں آ گئے ہوں۔
ہانگژو پہنچ کر میرا پہلا اسٹاپ تھا “نیشنل AI سپر کمپیوٹنگ سینٹر”۔ یہ عمارت کسی عام ٹیکنالوجی لیب جیسی نہیں تھی ۔یہ کسی مستقبل کے شہر کی یاد دلاتی تھی۔ اونچی چمکتی دیواریں، خودکار دروازے، اور ہر طرف نیلی روشنیوں کا ہلکا سا ساگر۔ اندر داخل ہوتے ہی ایسا لگا جیسے وقت کی رفتار کچھ اور ہی ہو گئی ہو ۔تیز، شفاف اور بے آواز۔
مجھے ایک راہداری سے گزارا گیا جہاں شیشے کے پار لمبی لمبی قطاروں میں سپر کمپیوٹرز کے ریکس چمک رہے تھے۔ یہ وہی سینٹر ہے جہاں چین نے جنریٹو AI، انڈسٹریل آٹومیشن اور ڈیفنس ٹیکنالوجی کے لیے ڈیٹا پروسیسنگ کا عالمی معیار قائم کیا ہے۔ یہاں کے کمپیوٹرز سیکنڈوں میں وہ کام کرتے ہیں جسے عام کمپیوٹر دنوں میں انجام دیتے۔
میری رہنمائی ایک نوجوان چینی خاتون کر رہی تھی، جس کا نام “می لینگ” تھا۔ وہ پُر اعتماد لہجے میں بولی، “یہ جگہ ہمارا دماغ ہے۔ یہاں ہم مصنوعی ذہانت کو صرف سکھاتے نہیں، اُسے سوچنا بھی سکھاتے ہیں۔” اس کی آواز میں وہی اعتماد تھا جو میں نے ژاؤ کی آنکھوں میں کوانٹم لیب میں دیکھا تھا۔
می لینگ مجھے ایک بڑی سکرین کے سامنے لے گئی ۔جہاں چین کے مختلف شہروں کے سپر کمپیوٹنگ سینٹرز ایک نیٹ ورک کے ذریعے جڑے ہوئے تھے۔ میں نے حیرت سے دیکھا کہ بیجنگ، ہانگژو اور شینزن کے ڈیٹا سینٹرز ایک مربوط نظام کی طرح ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کر رہے تھے۔ یہ صرف کمپیوٹنگ نہیں تھی ۔ یہ قومی ذہانت کا جال تھا۔
اس نے بتایا کہ ان سینٹرز کا استعمال محض سائنسی تحقیق تک محدود نہیں، بلکہ توانائی، زراعت، ٹرانسپورٹ، میڈیکل، اور دفاعی منصوبوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ حکومت نے 10 ایسے سینٹرز کا نیٹ ورک قائم کیا ہے جو دنیا کے کسی بھی AI انفراسٹرکچر کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کئی دنیا کے ٹاپ 10 سپر کمپیوٹرز میں شامل ہو چکے ہیں۔
میں نے سوچا میرے کراچی میں بجلی کا ایک جھٹکا کسی اسپتال کا وینٹی لیٹر بند کر دیتا ہے، اور یہاں بجلی اور ڈیٹا کا ایسا جال بچھایا گیا ہے جو قوم کا مستقبل سنوار رہا ہے۔ یہ فرق صرف وسائل کا نہیں، ترجیحات کا بھی ہے۔
باہر نکلی تو ہانگژو کی فضا میں ہلکی ہلکی نمی اور چمکدار دھوپ کا ملاپ تھا۔ درختوں کے پتوں پر سورج کی کرنیں پڑتی تھیں تو وہ روشنی بکھیر دیتے جیسے سینٹر کی اندرونی توانائی باہر بھی چھلک پڑی ہو۔ میرے ذہن میں اب تین تصویریں تھیں شنگھائی کی سیمی کنڈکٹر فیکٹری، ہِفے کی کوانٹم لیب، اور ہانگژو کا یہ AI سینٹر تینوں ایک ہی خواب کی مختلف شکلیں۔
اور میں نے سوچا… میرا یہ سفر کسی محض سیر و تفریح کا سفر نہیں، یہ سبق کا سفر ہے۔ وہ سبق جو ایک دن میرے شہر، میرے ملک کے نصیب بدل سکتا ہے — اگر ہم خواب دیکھنے اور انہیں حقیقت بنانے کا حوصلہ پیدا کریں۔
ہانگژو کے AI سپر کمپیوٹنگ سینٹر سے نکلنے کے بعد میرے دل میں ایک نئی آگ سی دہکنے لگی تھی ۔ وہی آگ جو کسی خواب کو دیکھنے کے بعد اس کے تعاقب میں نکلنے والے کو بے چین کر دیتی ہے۔ اگلا پڑاؤ تھا بیجنگ ۔ وہ شہر جو طاقت، علم اور مستقبل کا سنگم ہے۔ یہاں میرا سفر کسی عام تجربے کا نہیں تھا؛ میں جا رہی تھی وہاں، جہاں چین آنے والے زمانے کی سانسیں بُن رہا ہے ۔ 6G ریسرچ سنٹر۔
صبح کی پہلی روشنی جب بیجنگ کی سڑکوں پر گری تو شہر کسی خوبصورت ناول کے صفحے کی طرح کھل اٹھا۔ چوڑی شاہراہوں کے کنارے قطار در قطار درختوں پر خزاں کی ہلکی رنگت جھلک رہی تھی۔ ہوا میں وہی خنکی تھی جو کسی بڑے انکشاف سے پہلے محسوس ہوتی ہے۔ گاڑی جب Huawei کے ریسرچ کیمپس کے قریب پہنچی تو دور سے ہی بلند اینٹینا ٹاورز اور چمکتی ہوئی عمارتوں نے میرا استقبال کیا۔
یہ جگہ دیکھ کر ایک لمحے کو لگا جیسے میں کسی سائنس فکشن فلم کے سیٹ پر آ گئی ہوں۔ دروازے پر لگے خودکار اسکینرز نے میرے قدموں کو تھام کر ایک ترتیب میں ڈال دیا۔ اندر داخل ہوتے ہی ایک روشن راہداری میں چلتے چلتے میرا سامنا ایک وسیع ہال سے ہوا ۔جہاں دنیا کا مستقبل تشکیل پا رہا تھا۔
یہاں 6G پر تحقیق 2019 سے جاری ہے۔ آج، 2025 میں، چین دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ 2028 تک دنیا میں 6G کو کمرشلائز کرنے والا پہلا ملک ہوگا۔ ایک سائنسدان مسٹر آن نے میرا خیرمقدم کیا۔ وہ چھوٹے قد کے مگر بجلی سی تیزی رکھنے والے انسان لگے۔ انہوں نے ایک بڑے ڈسپلے پر 6G نیٹ ورک کی رفتار کا ڈیٹا دکھایا ۔ 1 Tbps۔ میں نے ہلکا سا سانس اندر کھینچا۔ یہ رفتار میرے ملک کے کئی خوابوں سے بھی تیز تھی۔ مسٹر آن نے کہا ، “5G نے دنیا کو جوڑ دیا، مگر 6G دنیا کو بدل دے گا۔”
ان کی آنکھوں میں وہی روشنی تھی جو میں نے ہانگژو کی انجینئر می لینگ کی آنکھوں میں دیکھی تھی ۔یقین کی روشنی۔
انہوں نے مجھے ایک ٹیسٹنگ ایریا میں لے جا کر دکھایا کہ کیسے 6G نیٹ ورک میں رئیل ٹائم ہولوگرافک کالز ممکن ہیں۔ ایک چینی طالب علم دوسرے کمرے میں بیٹھا تھا، اور میں یہاں۔ جیسے ہی اس نے بات کی، اس کی شبیہ میرے سامنے تھری ڈی میں ابھری جیتی جاگتی، سانس لیتی۔ میں حیرت سے مسکرائی۔ مجھے لگا جیسے پردہ وقت ہٹ گیا ہو اور ہم مستقبل میں آ نکلے ہوں۔
یہ ٹیکنالوجی محض رفتار کی کہانی نہیں یہ کنیکٹیویٹی کا نیا باب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 6G کا استعمال سرجری، خودکار گاڑیوں، ایجوکیشن، دفاع اور خلائی تحقیق میں ہوگا۔ چین اس وقت ZTE اور Huawei کے ذریعے ملک بھر میں فیلڈ ٹرائلز کر رہا ہے، اور بیجنگ سمیت 5 بڑے شہروں میں پائلٹ نیٹ ورکس فعال ہو چکے ہیں۔
میں نے سوچا میرے کراچی میں لوگ اب بھی سگنل ڈراپ ہونے پر ہنستے ہیں، اور یہاں سگنل مستقبل کے دروازے کھول رہے ہیں۔ فرق صرف رفتار کا نہیں، نظریے کا ہے۔
عمارت سے باہر نکلی تو سورج اپنی پوری چمک کے ساتھ بیجنگ کے آسمان پر مسکرا رہا تھا۔ دور کوئی درختوں میں سے ہوا گزرتی تھی اور ہلکی ہلکی سیٹی بجاتی تھی۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا یہی آسمان کبھی ہمارے سر پر بھی ہے۔ لیکن کچھ قومیں اس آسمان کو دیکھ کر ستاروں کے خواب بنتی ہیں، اور کچھ بس سایہ تلاش کرتی ہیں۔
یہ میرا چوتھا پڑاؤ تھا، اور ہر قدم کے ساتھ میرا دل یہ کہتا جا رہا تھا کہ یہ سفر مجھے بدل رہا ہے۔ میں اب صرف ایک مسافر نہیں رہی میں مشاہدے کی امانت دار بن چکی تھی۔
بیجنگ کے اس دھوپ بھرے دن کے بعد میرا سفر ایک اور سمت مڑ گیا۔ اس بار منزل کسی اینٹینا یا سرور روم کی نہیں، بلکہ انسان کے اندر چھپی دنیا کی تھی۔ اگلا پڑاؤ تھا شینزن (Shenzhen) وہ شہر جو چین کا جدید ترین چہرہ کہلاتا ہے۔ یہاں صرف عمارتیں بلند نہیں ہوتیں، یہاں خواب بھی آسمان سے اونچے بنتے ہیں۔
جب طیارہ شینزن کے ہوائی اڈے پر اترا تو ہوا میں ہلکی سی سمندری نمی گھلی ہوئی تھی۔ شہر کا منظر کچھ ایسا تھا جیسے نیلا آسمان اور شیشے کی عمارتیں ایک دوسرے میں گھل مل کر روشنی کا کوئی نیا رنگ ایجاد کر رہی ہوں۔ میں نے اپنے بیگ کی زِپ بند کی اور اس سوچ کے ساتھ لیب کی سمت روانہ ہوئی کہ آج کا دن مختلف ہونے والا ہے کیونکہ آج میں دیکھوں گی کہ AI کس طرح بایوٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر زندگی کو نئے معنی دے رہی ہے۔
جیسے ہی بایوٹیک پارک کے دروازے پر پہنچی، سفید رنگ کا وہ شفاف سا ماحول میرا منتظر تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی ماحول کسی اسپتال جیسا پرسکون اور لیبارٹری جیسا منظم محسوس ہوا۔ دور تک قطار میں لگی مشینیں جیسے خاموشی سے کسی بڑے معجزے کی تیاری میں مصروف ہوں۔
یہاں میری ملاقات ڈاکٹر ژاؤ لین سے ہوئی ایک درمیانی عمر کی خاتون سائنسدان جن کی مسکراہٹ میں نرمی تھی مگر نظریں غیر معمولی استقامت رکھتی تھیں۔ انہوں نے بڑے سادہ لہجے میں کہا “یہاں ہم بیماریوں سے لڑنے کے لیے محض دوائیں نہیں بناتے… ہم ڈی این اے کے الفاظ پڑھتے اور ان میں ترمیم کرتے ہیں۔ اور یہ سب مصنوعی ذہانت کے ذریعے ممکن ہو رہا ہے۔”
میں ان کے ساتھ ایک ہال میں داخل ہوئی جہاں اسکرینوں پر جینیاتی نقشے رنگوں میں جھلملاتے دکھائی دے رہے تھے۔ ڈاکٹر ژاؤ نے بتایا کہ AI اب روایتی سائنسدانوں سے کہیں زیادہ تیزی سے ڈیٹا پڑھ سکتا ہے، غلطیاں پکڑ سکتا ہے اور نئی دوائیں تجویز کر سکتا ہے۔ ایک طرف روبوٹک بازو خون کے نمونے اسکین کر رہے تھے اور دوسری جانب الگورتھم ان ڈیٹا پوائنٹس کو کسی کہانی کی طرح جوڑ رہے تھے۔
ڈاکٹر ژاؤ نے مجھے ایک کیس دکھایا۔ کینسر سیلز کی ابتدائی شناخت جو عام طریقے سے مہینوں میں ممکن ہوتی ہے ۔ یہاں چند گھنٹوں میں ہو رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا، “یہ AI ہماری آنکھیں تیز کر رہا ہے… اور امید کو لمبا۔”
میں نے سوچا، یہی وہ علم ہے جو کسی زندگی کو آخری سانس سے واپس کھینچ سکتا ہے۔ اور یہی وہ ٹیکنالوجی ہے جس کا اثر ہسپتالوں سے لے کر انسان کے وجود تک پھیلے گا۔
لیب کے ایک گوشے میں ایک بورڈ پر لکھا تھا
“Technology is not against nature — it is nature understood deeply.”
(ٹیکنالوجی فطرت کے خلاف نہیں — یہ فطرت کو گہرائی سے سمجھنے کا نام ہے۔)
یہ جملہ میرے دل میں اتر گیا۔ جب میں لیب سے باہر نکلی تو شینزن کی ہوا میں سمندر کا نمکین سا ذائقہ گھلا تھا۔ شام ڈھل رہی تھی، اور شہر کی روشنیوں میں وہی جگمگاہٹ تھی جو مستقبل کے شہروں میں دیکھی جاتی ہے۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور محسوس کیا کہ میرا یہ سفر اب جسمانی سرحدوں سے آگے نکل کر ذہن کے افق پر جا پہنچا ہے۔
شینزن کی سمندری ہوا میں ایک خاص تازگی تھی۔ پچھلے دنوں کے سفر نے میرے دل و دماغ پر جو نقش چھوڑے تھے، وہ ابھی تک ہلکے ہلکے دہک رہے تھے۔ مگر آج کی صبح کچھ اور ہی تھی جیسے ہوا خود فضا میں کوئی نیا پیغام لیے پھر رہی ہو۔ میرا آخری پڑاؤ تھا خودکار گاڑیوں کا مرکز۔ وہ جگہ جہاں مستقبل سڑکوں پر دوڑتا ہے اور ڈرائیور کا تصور ماضی بنتا جا رہا ہے۔
میں Baidu کے آٹو ڈرائیونگ کیمپس پہنچی تو سامنے شیشے کی عمارتوں اور جدید اسٹیشنوں کا ایک پورا منظر پھیلا ہوا تھا۔ دور سے ہی سڑکوں پر ہموار انداز میں چلتی ڈرائیور لیس گاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔جیسے وہ اپنے بل پر سانس لیتی ہوں۔ کوئی ہارن، کوئی شور نہیں۔ سب کچھ پرسکون اور ترتیب کا آئینہ تھا۔
میرے ساتھ ایک نوجوان انجینئر تھی یانگ می۔ اس کے ہاتھ میں ایک ٹیبلٹ تھا جس پر گاڑیوں کا نیٹ ورک دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، “یہ وہ شہر ہے جہاں گاڑیاں انسانوں سے زیادہ بہتر ڈرائیو کرتی ہیں۔” اس کے لہجے میں فخر تھا، لیکن وہ فخر خاموش سا، مضبوط سا تھا۔
ہم ایک لیول 4 آٹونومس گاڑی میں بیٹھے۔ اندر کا ماحول کسی جدید کیفے جتنا پرسکون تھا۔ ڈیش بورڈ پر کوئی اسٹیئرنگ وہیل نہیں، نہ ہی کوئی گیئر۔ گاڑی نے خود بخود رفتار پکڑی اور شینزن کی کشادہ سڑکوں پر روانہ ہو گئی۔ میں نے کھڑکی کے پار دیکھا ۔روشنیوں میں نہائے درخت اور بلند عمارتیں گاڑی کے شیشوں میں عکس بن کر رقص کر رہی تھیں۔ یانگ می نے بتایا کہ یہ پورا نظام 6G نیٹ ورک، AI اور سینسرز کے امتزاج پر چلتا ہے۔ ہر گاڑی ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں رہتی ہے، ہر موڑ کا حساب خود کرتی ہے۔
راستے میں ایک چوک پر ہماری گاڑی نے آہستہ ہو کر ایک بزرگ راہگیر کو راستہ دیا۔ کوئی جھٹکا نہیں، کوئی بے ترتیبی نہیں۔ میں نے سوچا اگر میرے کراچی میں ایسی کوئی گاڑی چلتی، تو شاید سڑکوں کا شور آدھا رہ جاتا۔ وقت کی چال تیز ہو جاتی اور تھکن آدھی۔
یانگ می نے فخر سے بتایا کہ شینزن، بیجنگ اور شنگھائی میں اس وقت ہزاروں خودکار گاڑیاں عوامی ٹرانسپورٹ کے طور پر چل رہی ہیں۔ Baidu اور Xpeng جیسے ادارے یہ خواب حقیقت میں بدل چکے ہیں۔ یہ صرف ٹرانسپورٹ کا انقلاب نہیں زندگی کے انداز کا انقلاب ہے۔
جب گاڑی ایک بلند پل پر سے گزری تو نیچے پورا شینزن جگمگا رہا تھا۔ سمندر کے کنارے لائٹس کا ہالہ ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین نے ستارے چرا کر اپنے دامن میں چھپا لیے ہوں۔ اور اسی لمحے مجھے احساس ہوا — یہ میرا آخری پڑاؤ ہے۔ سیمی کنڈکٹر فیکٹریوں سے شروع ہونے والا یہ سفر، کوانٹم کمپیوٹنگ، AI، 6G، بایوٹیکنالوجی اور اب خودکار گاڑیوں تک — مجھے صرف ایک ملک نہیں، ایک سوچ کا منظرنامہ دکھا گیا ہے۔
میں نے دل میں کراچی کو یاد کیا وہی شہر جہاں میرا بچپن گزرا، وہی خواب جو پہلی بار میرے اندر جاگے۔ لیکن اب میں صرف خواب دیکھنے والی نہیں، چین میں رہنے والی ایک گواہ ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب علم، نظم اور خواب ایک صف میں کھڑے ہو جائیں تو شہر بدل جاتے ہیں، زندگیاں نئے راستے اختیار کر لیتی ہیں۔
گاڑی نے اسٹیشن پر آہستگی سے رُک کر مجھے الوداع کہا۔ جیسے کوئی میزبان خاموشی سے رخصت دے۔ میں باہر نکلی، آسمان کی طرف دیکھا۔ شام دھیرے دھیرے ڈھل رہی تھی۔ ہوا میں سمندر کی مہک اور امید کا رنگ گھلا ہوا تھا۔ میرے ہاتھ میں میرے لکھے نوٹس یا ڈائری نہیں ، بلکہ تجربے کا خزانہ تھا ۔ ایک ایسا خزانہ جو میں یہیں چین میں سنبھالے ہوئے ہوں، اور جو میرے ماضی کے شہر اور موجودہ دیس کے درمیان ایک پُل بن چکا ہے۔
میرا دل جانتا ہے… کہ میں اب دو شہروں، دو دنیاؤں، اور دو خوابوں کی نمائندہ ہوں ۔کراچی کی جڑوں اور چین کے اُبھرتے مستقبل کے سنگم پر کھڑی۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں کہانیاں ختم نہیں ہوتیں ۔یہیں سے نئی شروعات جنم لیتی ہیں۔
چین کا خاموش دماغ ۔ کوانٹم کمپیوٹنگ …ارم زہرا ۔ چین






