بیجنگ کی ایک سرد مگر سنہری صبح تھی۔ آسمان پر سورج اپنے معمول کے مطابق چمک رہا تھا، مگر آج میں اُس سورج کو دیکھنے جا رہی تھی جو انسان نے خود بنایا ہے ۔ چین کا مصنوعی سورج۔
ریل کی کھڑکی سے باہر دھند میں لپٹے دیہات گزرتے جا رہے تھے۔ چینی روزنامہ پیپلز ڈیلی کا ایک صفحہ میرے ہاتھ میں تھا۔ اُس پر لکھا تھا:
“EAST Fusion Reactor انسان کا بنایا سورج، 70 ملین
ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی کے ساتھ۔”
میں نے سر اٹھایا، سوچا یہ کیسا زمانہ ہے جب انسان سورج کو آسمان سے زمین پر اتارنے کے خواب سچ کر رہا ہے۔
یہ منصوبہ 2006 میں چین کے شہر ہیفی (Hefei) میں انستٹی ٹیوٹ آف پلازما فزکس، چائنیز اکیڈمی آف سائنسز (ASIPP) نے شروع کیا تھا۔ اس کا نام رکھا گیا:
EAST – Experimental Advanced Superconducting Tokamak۔
خیال دراصل 1950 کی دہائی میں روسی سائنسدانوں نے پیش کیا تھا کہ اگر سورج کی طرح ہائیڈروجن ایٹموں کو فیوژن میں لایا جائے، تو لامحدود توانائی پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر چین نے اس خیال کو حقیقت کی شکل دی، اور دہائیوں کی تحقیق کے بعد 2021 میں اُس نے وہ کارنامہ انجام دیا جب EAST نے 70 ملین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کو ۱۷ منٹ تک برقرار رکھا ایک ایسا لمحہ جس نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کو چونکا دیا۔
جب ہم ری ایکٹر کے کمپلیکس پہنچے تو فضا میں ایک انجانی سنجیدگی تھی
سیکیورٹی چیک سے گزر کر اندر داخل ہوئی تو سفید دیواروں، مشینوں کی سرگوشیوں اور تیز روشنیوں نے ایک الگ دنیا کا منظر بنا رکھا تھا۔ میرے ساتھ ایک چینی انجینئر، لیو ژیاؤ، تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب فخر جھلک رہا تھا۔ اُس نے کہا
“یہ ہمارا سورج ہے، مگر یہ زمین کو جلا نہیں، روشن کرے گا۔”
میں نے مسکرا کر کہا: “کیا انسان واقعی روشنی کو قابو کر سکتا ہے؟”
وہ ہنس پڑی، “روشنی کو نہیں، مگر امید کو ہم ضرور تھام سکتے ہیں۔”
جب میں نے اُس عظیم گول چیمبر کو دیکھا جہاں پلازما کی نیلی لہر گردش کر رہی تھی، تو یوں لگا جیسے زمین کے سینے میں ایک نیا سورج دھڑک رہا ہو۔ اندر کوئی آگ نظر نہیں آ رہی تھی، مگر فضا میں اس کی تپش محسوس ہوتی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا ۔ یہ آگ انسان نے نہیں، خوابوں نے جلائی ہے
واپسی پر ریل کے پہیے شور کر رہے تھے مگر میرے اندر ایک خاموش دعا جنم لے رہی تھی کہ یہ مصنوعی سورج انسان کے لیے روشنی کا پیغام بنے، غرور کا نہیں کہ یہ آگ، زمین کو جلائے نہیں، بلکہ امید کی صبح کو روشن کرے۔
یہ چین کی زمین تھی، مگر اُس دن مجھے لگا جیسے سورج، سائنس اور دعا تینوں ایک ہی زبان بول رہے ہیں۔
ہیفی سے واپسی کے چند روز بعد میں نے اپنا اگلا سفر شروع کیا ۔ اس بار روشنی کی نہیں، ذہانت کی دنیا میں میرا رخ تھا چین کے جنوبی شہر شینژن کی جانب، جسے دنیا “سمارٹ سٹی” کہتی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان اور مشین کے درمیان فاصلہ محض ایک لمس جتنا رہ گیا ہے۔
ریل سے اترتے ہی پہلا تاثر حیرت کا تھا۔ اسٹیشن کے دروازے پر کوئی سیکیورٹی گارڈ نہیں کھڑا تھا، بس کیمرے تھے، جو چپ چاپ ہر چہرے کو پہچان رہے تھے۔ فیس ریکگنیشن کی یہ دنیا بظاہر خاموش تھی مگر ہر حرکت ریکارڈ ہو رہی تھی۔ میں نے سوچا “یہ شہر انسانوں سے زیادہ ڈیٹا کو جانتا ہے۔”
شینژن کی سڑکیں بالکل سیدھی، صاف اور حیران کن طور پر بے شور تھیں۔ ٹریفک لائٹس خودکار تھیں۔ گاڑیاں ایک دوسرے سے ایسے ہم آہنگ چلتی تھیں جیسے کسی نازک راگ کی دھن۔ ہر بس برقی تھی، ہر موٹر سائیکل خاموش۔ فضا میں کوئی دھواں نہیں، صرف نمی اور ٹیکنالوجی کی خوشبو۔
میرے ساتھ ایک چینی طالب علم، ژاؤ مینگ، تھا جسے میں نے یونیورسٹی میں جانا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا
“یہاں انسان نہیں رکشے ہارن بجاتے ہیں ، بلکہ سینسر بات کرتے ہیں۔”
میں نے ہنس کر کہا: “یعنی شور کم، نظم و ضبط زیادہ۔”
اس نے جواب دیا “ہاں، یہی ہے سمارٹ سٹی کی پہچان جہاں ٹریفک، لائٹس، بجلی، اور حتیٰ کہ کوڑے دان بھی AI
سے چلتے ہیں ۔
ہم ایک کیفے میں داخل ہوئے۔ آرڈر دینے کے لیے کوئی ویٹر نہیں تھا ایک روبوٹ میز کے پاس آیا، سر جھکا کر بولا “نی ہاؤ، آپ کی کافی تیار ہے۔” میں نے کپ لیا تو دل میں سوچا یہ بھی اک عہد ہے، جہاں مسکراہٹیں کوڈ بن گئی ہیں۔”
اگلے دن میں ہانگزو گئی وہ شہر جہاں چین کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی، علی بابا، نے “City Brain” کے نام سے پورے شہر کا نظام خودکار کر دیا ہے۔ وہاں کی سڑکیں کیمروں سے بھری ہیں، جو ٹریفک کا تجزیہ کرتے ہیں، حادثے سے پہلے خطرے کا سگنل دیتے ہیں، اور ایمبولینس کو ترجیحی راستہ فراہم کرتے ہیں۔ میں نے ایک چوراہے پر کھڑے ہو کر دیکھا کہ جب ٹریفک بڑھا، تو سگنل خود بخود بدلا، فاصلہ ناپا، اور بہاؤ بہتر کر دیا۔ کوئی سپاہی، کوئی حکم نہیں سب کچھ نظام کے ہاتھوں میں۔
ایک بزرگ خاتون مجھ سے بولیں، “پہلے ہمیں لائٹ کے انتظار میں جھنجھلاہٹ ہوتی تھی، اب شہر خود سوچتا ہے۔”
میں نے دل میں سوچا واقعی، یہاں شہر انسانوں کے لیے نہیں، انسان شہر کے لیے سانس لیتے ہیں۔
رات کو ہوٹل کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو عمارتوں کی روشنیوں میں ایک نظم تھی، جیسے ہر بلب، ہر اسکرین کسی مرکزی دماغ کے اشارے پر جھلمل کر رہا ہو۔ مگر اسی منظر کے پیچھے ایک ہلکی سی خلش بھی تھی کیا اتنی خودکاری میں انسان کی آزادی باقی رہ جائے گی؟
شینژن اور ہانگزو واقعی مستقبل کے شہر ہیں ایسے شہر جہاں صفائی، رفتار اور نظم ایک نیا تمدن تشکیل دے رہے ہیں۔ لیکن دل کے کسی گوشے میں ایک سوال ٹھہر گیا۔ کیا اسمارٹ سٹیز کے یہ چمکتے بلب، انسان کے احساس کی جگہ لے سکیں گے؟
سائنس نے روشنی اور ذہانت دونوں بنا لی ہیں مگر شاید محبت اور خلوص اب بھی دستی طور پر ہی بنتے ہیں۔
شینژن کے اسمارٹ راستوں، خودکار سگنلز اور خاموش برقی گاڑیوں سے گزرتی میں اب ایک نئے سفر پر تھی ۔اس بار آسمان کی طرف۔ چین کے ایک اور شہر چانگشا (Changsha) میں، جہاں زمین اور بادلوں کے درمیان فاصلہ محض چند دنوں میں کم کر دیا گیا تھا۔
ٹرین کی کھڑکی سے گزرتا منظر دیکھتے ہوئے میں سوچتی رہی کچھ سال پہلے تک بلڈنگ بنانا مہینوں کا کام ہوتا تھا۔ مگر اب خبریں کہتی ہیں کہ یہاں ایک کمپنی نے صرف ۱۰ دن میں ۵۷ منزلہ عمارت تعمیر کر دی۔ میں نے یہ جملہ کئی بار پڑھا، پھر خود سے کہا “یہ محض عمارت نہیں، رفتار کی نئی تعریف ہے۔”
چانگشا پہنچتے ہی میں نے دیکھا ۔ وہ عمارت، جسے مقامی لوگ “اسکائی سٹی” کہتے ہیں، بادلوں میں اٹھی کھڑی تھی۔ نیچے لوگ چھوٹے دکھائی دیتے تھے، جیسے وقت کے بہاؤ کے آگے جھک گئے ہوں۔ میں نے گردن اٹھا کر اوپر دیکھا تو یوں لگا جیسے عمارت نہیں، خواب کھڑا ہو۔
میری ملاقات بروڈ گروپ
(Broad Group)
کے ایک انجینئر، وانگ ژی چیانگ، سے ہوئی۔ اس نے فخر سے بتایا
ہم نے پری فیب ٹیکنالوجی (Prefabrication)
سے یہ ممکن بنایا۔
ہر منزل پہلے فیکٹری میں تیار کی جاتی ہے، پھر یہاں آ کر جوڑ دی جاتی ہے جیسے کوئی عمارت نہیں، بلکہ مشین اسمبل ہو رہی ہو۔”
میں حیرت میں ڈوبی سن رہی تھی۔ اس نے مزید کہا۔ ہم روزانہ پانچ منزلیں کھڑی کر لیتے تھے۔ اور یہ سب مکمل اسٹیل کے ڈھانچے سے ہے، زلزلہ برداشت، توانائی بچانے والا، اور ماحول دوست۔”
میں نے سوچا یہ قوم وقت کو پیچھے چھوڑنے نکلی ہے۔ جہاں باقی دنیا “کل” کے خواب دیکھتی ہے، وہاں چین “اگلے ہفتے” حقیقت بنا دیتا ہے۔
عمارت کے اندر داخل ہوئی تو فرش سے چھت تک شفاف شیشے، ہوا کے بہاؤ کے لیے خاص راستے، اور توانائی بچانے والے خودکار دروازے۔ سب کچھ اتنا ترتیب سے جڑا ہوا جیسے کسی ذہین آرٹسٹ نے آسمان کو چھونے کے لیے برش چلایا ہو۔
چھت پر جا کر جب میں نے شہر کا منظر دیکھا، تو نیچے پورا چانگشا ایک معماری نظم کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ کرینیں حرکت میں تھیں، مزدوروں کے چہروں پر مسکراہٹ، اور ہر طرف “کل کی امید” کی خوشبو۔
میں نے دل میں سوچا کہ
“یہ ہاتھ مٹی سے کیا کچھ بنا لیتے ہیں، مگر کبھی کبھی دل مٹی سے پیچھے رہ جاتا ہے۔”
میرے ساتھ ایک نوجوان چینی لڑکی، لی نینگ، کھڑی تھی۔ اس نے کہا
“ہم چاہتے ہیں کہ ہر انسان کو گھر ملے، جلدی، محفوظ اور صاف۔ یہ ٹیکنالوجی وقت بچاتی ہے، مگر ہم کوشش کرتے ہیں کہ احساس باقی رہے۔”
میں نے مسکرا کر کہا: “تمہارے شہر آسمان چھو رہے ہیں، بس دل زمین پر رہنے دو۔”
واپسی پر میں سوچتی رہی مصنوعی سورج سے لے کر اسمارٹ شہروں اور اب فلک بوس عمارتوں تک، چین نے ہر سمت میں یہ ثابت کیا ہے کہ جب قوم خواب دیکھے اور محنت جاگے تو دنوں میں صدیوں کا سفر طے ہو جاتا ہے۔
ریل کی کھڑکی سے باہر شام اتر رہی تھی۔ بادلوں کے پیچھے ڈوبتا سورج اور سامنے آسمان کو چھوتی عمارت دونوں ایک ہی کہانی سنا رہے تھے کہ انسان کا سفر رکنے والا نہیں،
اور شاید اگلی منزل، زمین سے نہیں، بادلوں سے اوپر ہوگی۔
چانگشا کی فلک بوس عمارتوں سے نکل کر جب میں نے اپنا اگلا سفر شروع کیا، تو اس بار منزل زمین کے قریب تھی مگر معنی میں آسمان سے بلند۔ میں جا رہی تھی شمالی چین، جہاں ریت کے سمندر کے کنارے ایک سبز دیوار اگ رہی ہے “گرین گریٹ وال”۔ یہ وہ دیوار نہیں جو پتھروں سے بنی ہو، بلکہ زندہ شاخوں اور پتیوں سے تراشی گئی ہے۔
ریل کی کھڑکی کے پار، جوں جوں ہم بیابان علاقے کی طرف بڑھتے گئے، منظر بدلتا گیا۔ کبھی سنہری ریت، کبھی مٹی کے ٹیلے، اور پھر اچانک کہیں سے سبز پودوں کی قطاریں اُبھرتی دکھائی دیتیں۔ میرے دل میں ایک عجیب سا سکون اتر رہا تھا — جیسے یہ سبزہ، زمین کے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہو۔
یہ منصوبہ 1978 میں شروع ہوا، جب چین کو احساس ہوا کہ شمال سے بڑھتا ہوا گوبی ریگستان اس کی زمینوں کو نگل رہا ہے۔ تب حکومت نے عزم کیا کہ وہ ایک ایسی سبز دیوار بنائے گی جو ریت کو روکے گی اور آنے والی نسلوں کو سانس لینے کے لیے صاف ہوا دے گی۔ تب سے آج تک اربوں درخت لگائے جا چکے ہیں۔ اس عظیم ماحولیاتی منصوبے کو اب دنیا “گرین گریٹ وال آف چائنا” کے نام سے جانتی ہے۔
میری ملاقات ایک ماحولیاتی انجینئر، ژاؤ لی فینگ، سے ہوئی جو گزشتہ دس برسوں سے اسی منصوبے پر کام کر رہی تھیں۔ وہ دھوپ میں جھلستی زمین پر درختوں کی قطار دکھاتے ہوئے بولیں
“یہ ہماری سب سے لمبی دیوار ہے مگر اس میں پتھر نہیں، امید جڑی ہے۔”
میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا “کیا یہ واقعی ریت کو روک لیتی ہے؟”
انہوں نے مٹی میں جھک کر ایک ننھے پودے کو سیدھا کیا اور کہا
“ہاں، آہستہ آہستہ۔ درخت دیوار نہیں بنتے، مگر سایہ بناتے ہیں اور وہ سایہ صدیوں کو بدل دیتا ہے۔”
ہوا میں ہلکی سی ریت اُڑ رہی تھی، مگر اس کے درمیان وہ سبز قطاریں ایسے دکھائی دے رہی تھیں جیسے زمین نے خود کو ازسرِ نو لکھنا شروع کر دیا ہو۔ ہر طرف مشینیں اور مزدور تھے جو زمین میں نئے پودے گاڑ رہے تھے، کچھ مقامی دیہاتی اپنے بچوں کے ساتھ شاخیں لگا رہے تھے۔ وہ ہنستے، گاتے، مٹی میں ہاتھ بھرتے جیسے یہ محنت عبادت ہو۔
میں نے محسوس کیا، چین کی ترقی صرف لوہے اور شیشے کی عمارتوں میں نہیں، بلکہ ان جڑوں میں بھی ہے جو وہ مٹی میں گاڑ رہا ہے۔ یہی تو اصل تمدن ہے ۔جو درخت لگانے والے ہاتھوں میں سانس لیتا ہے۔
رات کو میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں قیام پذیر ہوئی۔ کھڑکی سے باہر چاندنی میں درختوں کی قطاریں چمک رہی تھیں۔
“یہ درخت، جیسے دعا کے ہاتھ ہوں جو زمین کے لیے اُٹھے اور آسمان کو چھو لیں۔”
میں نے سوچا مصنوعی سورج، سمارٹ شہر، فلک بوس عمارتیں، سب اپنی جگہ، مگر اصل عظمت شاید وہی ہے جو زمین کو بچانے کے لیے جھکنے میں ہے۔
یہ گرین گریٹ وال صرف چین کی نہیں، پوری انسانیت کی دیوار ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگر انسان چاہے، تو وہ ریت کو بھی سبز کر سکتا ہے۔
ریل کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ سبز لہریں دور تک پھیل رہی تھیں۔ میں نے دل میں دعا کی کہ یہ دیوار کبھی نہ ٹوٹے، اور انسان ہمیشہ زمین کے قریب رہے۔
شمالی چین کی سبز دیواروں سے واپسی پر، جب میں نے اپنا بیگ دوبارہ باندھا تو احساس ہوا کہ میرا یہ سفر اب زمین سے آسمان، ٹیکنالوجی سے فطرت، اور اب انسانوں کے درمیان تعلقات کی دنیا تک پہنچ گیا ہے۔
ریل اسٹیشن کے شور میں ایک نیا لفظ بار بار سنائی دے رہا تھا
K ویزہ
یہ وہ نیا دروازہ ہے جو چین نے دنیا کے لیے کھول دیا ہے، اور جس سے گزر کر نہ صرف علم بلکہ روزگار کی نئی راہیں سامنے آ رہی ہیں۔
چین، جو کبھی بند دروازوں کی سرزمین سمجھا جاتا تھا، اب اپنے دروازے کھول چکا ہے خاص طور پر اُن کے لیے جو سیکھنا، کام کرنا، یا خوابوں کو حقیقت میں بدلنا چاہتے ہیں۔
K
ویزہ پروگرام دراصل غیر ملکی ماہرین، طلبہ، محققین اور کاروباری افراد کے لیے ایک نیا نظام ہے۔
اس کے تحت اب پاکستانی طلبہ اور ماہرین کے لیے چین میں تعلیم اور ملازمت دونوں کو آسان بنایا جا رہا ہے۔
بیجنگ کی ایک یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار میں میں نے پہلی بار اس منصوبے کے بارے میں تفصیل سنی۔
ایک پروفیسر، ڈاکٹر ژاؤ ہاؤ لیانگ، سلائیڈ پر نمودار ہوتے اعداد و شمار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے:
“ہم چاہتے ہیں کہ دنیا چین میں آ کر نہ صرف علم حاصل کرے بلکہ اپنے علم سے چین کو بھی سنوارے۔”
پھر وہ مسکرائے اور بولے: “
K
ویزہ اس خواب کی کنجی ہے۔”
ڈاکٹر ژاؤ ہاؤ لیانگ کے الفاظ نے جیسے میرے اندر ایک نیا اُجالا سا بھر دیا۔
یونیورسٹی کے ہال میں بیٹھے درجنوں طلبہ کے چہروں پر ایک ہی تجسس تھا کیا واقعی اب ہم چین میں رہ کر سیکھ بھی سکتے ہیں، اور کام بھی؟
پچھلے چار برسوں میں میں نے چین کو بدلتے دیکھا ہے۔
سڑکوں پر خودکار گاڑیاں، لائبریریوں میں روبوٹک لائبریرین، اور چھوٹے شہروں میں بھی جدید تحقیقی لیبارٹریاں۔ مگر اب یہ سب کچھ صرف چین کے لیے نہیں، دنیا کے لیے ہے۔
اور اس “دنیا کے لیے چین” کا دروازہ K ویزہ کے نام سے کھل چکا ہے۔
یہ ویزہ محض ایک دستاویز نہیں بلکہ ایک دعوت ہے۔
دعوت اُن ذہنوں کے لیے جو خواب دیکھنے اور تعبیر ڈھونڈنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
اب کسی پاکستانی طالب علم کو یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے لمبی کاغذی راہوں سے نہیں گزرنا پڑے گا،
اور کسی نوجوان انجینئر کو اپنی مہارت کے اظہار کے لیے دعوت نامے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
14 اگست 2025 کو جب بیجنگ میں وزارتِ انصاف نے اس ویزہ کے اجرا کا اعلان کیا تو دنیا بھر کے علمی حلقوں میں ایک نئی سرگوشی گونج اٹھی
“چین علم بانٹنے جا رہا ہے۔”
پھر یہ اعلان ہوا کہ 1 اکتوبر 2025 سے K ویزہ باقاعدہ طور پر جاری کیا جائے گا۔
یعنی یہ وہ دن ہو گا جب علم کی ایک نئی سرحد مٹ جائے گی۔
کلاس کے وقفے میں جب میں چینی دوست لِی وین کے ساتھ کیفے کی چھت پر بیٹھی تھی، تو اُس نے مسکراتے ہوئے کہا
“اب ہمارے یونیورسٹیوں میں صرف چینی طلبہ نہیں ہوں گے، بلکہ دنیا کے ہر رنگ کے خواب ہوں گے۔”
میں نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا۔ جہاں سورج ڈھل رہا تھا مگر فضا میں روشنی باقی تھی۔
شاید یہ روشنی اسی امید کی تھی جو K ویزہ کے ذریعے پھیلنے والی تھی۔
یہ پروگرام اُن نوجوانوں کے لیے ہے جو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، یا ریسرچ کے میدانوں میں کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔
چاہے وہ ایک تحقیقی مقالہ ہو یا کوئی اسٹارٹ اَپ منصوبہ، چین اب ان کے لیے ایک پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
یہ ویزہ انہیں بار بار داخلے کی اجازت دیتا ہے، لمبے قیام کی سہولت فراہم کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ ان سے کسی اسپانسر کی قید نہیں چاہتا۔
میں نے جب پہلی بار اس پالیسی کی تفصیل پڑھی، تو سوچا
“یہ تو علم کی بیلٹ اینڈ روڈ ہے۔”
جہاں کبھی قافلے ریشم لاتے تھے، اب علم، تحقیق اور دوستی کے قافلے آئیں گے۔
پاکستان اور چین کے تعلقات کے اس نئے دور میں، K ویزہ محض ایک پروگرام نہیں بلکہ اعتماد کی نئی لکیر ہے۔
ایک ایسی لکیر جو سرحدوں کو نہیں، دلوں کو جوڑتی ہے۔
یہاں جب میں نے شینژن کے ایک ٹیکنالوجی پارک کا دورہ کیا جہاں مختلف ممالک کے نوجوان ماہرین کام کر رہے تھے۔
ان میں پاکستانی، ایرانی، افریقی اور یورپی چہرے بھی شامل تھے۔ سب اپنے اپنے علم سے چین کے مستقبل میں رنگ بھر رہے تھے۔
ایک روبوٹکس انجینئر، عائشہ تنویر، جو فیصل آباد سے آئی تھیں، اس نے بتایا
“چین میں تحقیق کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ یہاں محنت کو جلدی پہچان ملتی ہے۔”
شام کو یونیورسٹی کی راہداری میں چلتے ہوئے میں نے سوچا
مصنوعی سورج، سمارٹ شہر، فلک بوس عمارتیں، اور سبز دیواریں سب ترقی کی علامتیں ہیں۔
مگر اصل طاقت شاید ان نوجوانوں میں ہے جو دنیا کے مختلف گوشوں سے آ کر ایک خواب میں شریک ہیں۔
کھڑکی سے باہر شام کی نرم روشنی پھیل رہی تھی۔
مجھے یوں لگا جیسے چین نے صرف اپنے ملک کے لیے نہیں، پوری دنیا کے لیے ایک راستہ روشن کیا ہے
ایک راستہ جو علم، محنت اور تعاون سے گزرتا ہے۔
“زمین پر اگر روشنی ہے، تو وہ ان ہاتھوں سے ہے جو فاصلے مٹا دیتے ہیں۔”
ریل کی سیٹی بجی میرا سفر ختم ہو رہا تھا، مگر ایک نیا سفر شاید ابھی شروع ہوا تھا۔
وہ سفر جس میں انسان، علم، اور دوستی ایک ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔
ریل کی کھڑکی کے پار سورج ڈوب رہا تھا، اور میں اپنے سفر کے آخری باب میں داخل ہو رہی تھی۔ مصنوعی سورج سے لے کر اسمارٹ شہروں، فلک بوس عمارتوں، سبز دیواروں اور چین کہ “کے ویزہ” نئے مواقع تک
چین کے چہرے کے ہر رنگ کو میں نے قریب سے دیکھا تھا۔ مگر اب میں اُس خواب کی دہلیز پر تھی جس نے ان سب خوابوں کو جنم دیا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI)۔
بیجنگ کی خزاں بھری شام میں جب میں نے “بیلٹ اینڈ روڈ ایکزیبیشن سینٹر” کا دورہ کیا، تو یوں لگا جیسے دنیا کے تمام راستے ایک ہی نقشے میں سمیٹ دیے گئے ہوں۔ دیواروں پر چمکتی لکیریں، نقشے پر جڑے ملکوں کے جھنڈے اور ان کے بیچ ایک مضبوط سنہری لکیر جو چین سے نکل کر ایشیا، افریقہ، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیل رہی تھی۔ یہ وہی راستہ تھا جو صدیوں پہلے ریشم کی تجارت کے لیے کاروانوں نے طے کیا تھا، مگر اب وہی راستہ اسٹیل، ریل اور ڈیجیٹل نیٹ ورک میں بدل چکا ہے۔
ایک نوجوان چینی ماہر، لیو جیان، نے مجھے بتایا یہ محض تجارت نہیں، یہ رابطے کی نئی دنیا ہے۔ ہم 150 سے زائد ممالک کے ساتھ سڑکوں، بندرگاہوں اور ریل کے ذریعے ترقی بانٹنا چاہتے ہیں۔”
میں نے مسکرا کر پوچھا: “اور پاکستان؟”
وہ فخر سے بولا:
CPEC چین پاکستان اقتصادی راہداری ہماری دوستی کا دل ہے۔
گوادر سے کاشغر تک جو رستہ کھل رہا ہے، وہ صرف مال کا نہیں، خوابوں کا راستہ ہے۔”
میں نے لمحہ بھر کو آنکھیں بند کیں اور تصور میں وہ راستہ دیکھا۔ ریگستانوں سے گزرتی ریل، سمندروں پر دوڑتی بحری جہاز، اور ان کے ساتھ چمکتے چہرے جنہیں روزگار اور امید ملی۔ یہ محض ایک معاشی منصوبہ نہیں تھا، بلکہ دنیا کو ایک دھاگے میں پرونے کی کوشش تھی۔
اسی دوران میں نے ایک پاکستانی طالب علم، زویا احسان، سے ملاقات کی جو چین میں اکنامکس پڑھ رہی تھی۔ اس نے کہ چین
BRI نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ ترقی صرف دولت کا نام نہیں، بلکہ اشتراک کا عمل ہے۔ جب راستے ملتے ہیں، تو قومیں قریب آتی ہیں۔”
اس کے الفاظ دل میں اتر گئے۔
شام ڈھلنے لگی تھی، سینٹر کی کھڑکیوں سے باہر بیجنگ کی روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ میں نے سوچا مصنوعی سورج نے توانائی دی، اسمارٹ شہروں نے نظم، سبز دیواروں نے سانس، اور اب بیلٹ اینڈ روڈ نے رشتے۔ چین نے ترقی کو صرف اپنے لیے نہیں، دنیا کے لیے بُن دیا ہے۔
واپسی کی رات ریل میں میں نے اپنا ڈائری کھولی۔ صفحہ در صفحہ میرا یہ سفر ایک نقشے میں ڈھلتا جا رہا تھا
ہیفی کا مصنوعی سورج، شینژن کے خودکار شہر، چانگشا کی بلندی، شمال کی سبز دیوار، بیجنگ کے تعلیمی دروازے، اور اب یہ عالمی رستہ جو زمین کو ایک شہر میں بدل رہا ہے۔
کھڑکی سے باہر جھانکا تو اندھیری رات میں دور کسی اسٹیشن کی روشنی لمحہ بھر کو چمکی۔
“یہ روشنی سفر کی نہیں، یقین کی ہے جو ایک ملک سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔”
ریل کی سیٹی بجی، اور مجھے لگا جیسے میرا سفر ختم نہیں ہوا،
بلکہ اب ایک نئے سفر کا آغاز ہے
وہ سفر جس میں قومیں ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھیں گی،
جہاں علم، تعاون اور انسانیت کی لکیر بیلٹ اینڈ روڈ کی طرح زمین کے نقشے پر ہمیشہ کے لیے کھنچ جائے گی۔
یوں چین کا یہ سفر اختتام کو پہنچا مگر کہانی ابھی باقی ہے، کیونکہ خواب
ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں۔
چین کا مصنوعی سورج …..ارم زہرا ۔ چین
