اسلام آباد(کنزیومرواچ نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بتایا گیا کہ چار کمپنیوں عارف حبیب لمیٹڈ، فوجی فرٹیلائزر کمپنی (ایف ایف سی)، ایئر بلو اور لکی گروپ نے پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں حصہ لیا ہے جس کے آئندہ ماہ کے آغاز میں حتمی مرحلے تک پہنچنے کی توقع ہے۔جمعہ کو سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس منعقد ہوا۔بریفنگ کے دوران سیکریٹری دفاع نے کمیٹی کو بتایا کہ تمام شریک کمپنیوں نے حکومت کی جانب سے طے کردہ شرائط و ضوابط میں نرمی کی درخواست کی ہے۔تاہم حکومت نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ قومی ایئرلائن کا نام تبدیل نہیں کیا جائے گا اور طیاروں سے قومی پرچم نہیں ہٹایا جائے گا۔ ملکیت پاکستانی شہریوں کے پاس ہی رہے گی اور کسی غیر ملکی فرد یا ادارے کو بطور اکثریتی شیئر ہولڈر نیلامی کے عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔کمیٹی کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی برطانیہ اور یورپ کے لیے پروازوں کی بندش کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔ بتایا گیا کہ سال 2018 میں پی آئی اے نے ان روٹس پر مجموعی طور پر 1,420 پروازیں چلائیں، جن سے 36 ارب روپے کی آمدن ہوئی جبکہ اخراجات 39 ارب روپے رہے۔سال 2019 میں ایئرلائن نے برطانیہ اور یورپ کے لیے 478 پروازیں چلائیں، جن سے 15 ارب روپے کی آمدن ہوئی جبکہ اخراجات 13 ارب روپے رہے۔ کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ پی آئی اے نے 2022 تک یورپ کے لیے اپنی پروازوں کا شیڈول کامیابی سے برقرار رکھا۔سیکریٹری دفاع نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ برطانیہ اور یورپ کے لیے پروازوں کی معطلی سے نہ صرف 13 ارب روپے کا مالی نقصان ہوا بلکہ اس سے بین الاقوامی سطح پر پی آئی اے کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا۔کمیٹی کے چیئرمین نے پی آئی اے کی خدمات کے ناجائز استعمال کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کی سفارش کی اور مفت سفری سہولتوں کے فوری خاتمے کی ہدایت دی۔ انہوں نے مزید ہدایت کی کہ پی آئی اے میں کسی بھی غیر قانونی یونین سرگرمی کو قانون کے مطابق نمٹایا جائے۔کمیٹی کو ایئرپورٹس سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) کے کام اور نظامِ کار کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ بتایا گیا کہ 14 فعال ایئرپورٹس پر اے ایس ایف کی خدمات فراہم کی جا رہی ہیں جبکہ دیگر 16 غیر فعال ایئرپورٹس پر بھی فورس تعینات ہے، جو اے ایس ایف پر اضافی بوجھ ہے۔ موجودہ عملے میں 10 فیصد خواتین اور 90 فیصد مرد اہلکار شامل ہیں۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے ایئرپورٹس پر مسافروں اور سامان کی اسکریننگ کے نظام کو اپ گریڈ کرنے کی سفارش کی جبکہ چیئرمین نے جدید ٹیکنالوجی اپنانے پر زور دیتے ہوئے مشتبہ مسافروں کے بورڈنگ پاسز پر نشاندہی کا نظام متعارف کرانے کی ہدایت دی۔چیئرمین نے چھوٹے ایئرپورٹس، خصوصاً پشاور اور بلوچستان میں سیکیورٹی کے کمزور انتظامات کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے فوری بہتری کی ضرورت پر زور دیا۔کمیٹی نے چترال ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی پروازوں کی عدم دستیابی کے مسئلے پر بھی غور کیا۔ چیئرمین نے کہا کہ چترال ایک اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ ہے جو پاکستان کو حساس سرحدی علاقوں سے جوڑتا ہے اور اگر تاجکستان کے ذریعے ایک رابطہ سرنگ تعمیر کی جائے تو وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
چار کمپنیوں نے پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں حصہ لیا،
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل
