(تحریر: عامر سعید خان)
حکیم محمد سعیدؒ ایک ایسے مردِ مومن، پرہیزگار، خدا ترس اور عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی کو خدمتِ خلق، اشاعتِ علم، فروغِ طب اور تعمیرِ ملت کے لیے وقف کر دیا۔ وہ ذاتی مفادات کو ہمیشہ اجتماعی اور قومی مفادات پر قربان کر دینے والے عظیم المرتبت انسان تھے۔ ان کا وجود سراپا ایثار، ان کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد، اور ان کی شہادت انسان دوستی اور حق پرستی کی لازوال دلیل ہے۔
حکیم صاحب کی ذات علم و حکمت کا گنجینہ تھی۔ وہ نہ صرف ایک جید طبیب اور حاذق معالج تھے بلکہ ایک مردِ درویش، انسانیت کے محسن اور پاکستان کے مخلص ترین خادم بھی تھے۔ ان کا یہ معمول رہا کہ ہمیشہ باوضو رہتے، اکثر روزے سے مریضوں کا علاج کرتے اور شفایابی کو محض اللہ تعالیٰ کی عطا سمجھتے۔ لاکھوں مریضوں کا وہ بلا معاوضہ علاج کرتے رہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں — کراچی، لاہور، راولپنڈی اور پشاور — میں وہ پابندی سے صبح کے اوقات میں مطب کھولتے اور دکھی انسانیت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاتے۔
مشرق کی طب جو صدیوں کی تاریخ رکھتی تھی مگر تحقیق اور ارتقاء کے فقدان کا شکار تھی، اس کے احیاء اور فروغ کے لیے حکیم صاحب نے انتھک محنت کی۔ انہوں نے اسے جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا، دواسازی میں معیاری ٹیکنالوجی متعارف کرائی، حکماء کو اصول و ضوابط کا پابند بنایا اور طبِ یونانی کو ایک نیا عروج بخشا۔ ان کا خواب یہ تھا کہ طبِ مشرقی، ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں تاکہ غریب اور متوسط طبقے کو ارزاں اور مؤثر علاج میسر آسکے۔
نونہالوں کی تربیت
حکیم صاحب کے دل میں بچوں کے لیے محبت کا بے پایاں جذبہ موجزن تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہی نونہال وطنِ عزیز کے مستقبل کے معمار ہیں۔ چنانچہ انہوں نے 1953ء میں رسالہ ہمدرد نونہال جاری کیا جو آج بھی ان کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد کی سرپرستی میں شائع ہو رہا ہے۔ 1964ء سے لے کر اپنی شہادت (1998ء) تک وہ مسلسل ’’جاگو جگاؤ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے، جس کے ذریعے انہوں نے بچوں اور نوجوانوں میں مطالعہ کی عادت، اخلاقی تربیت اور حب الوطنی کا جذبہ پروان چڑھایا۔
نونہال ادب کے شعبے کے تحت تقریباً ساڑھے چار سو سے زائد کتب شائع کی گئیں جن میں دلچسپ کہانیاں، سائنسی مضامین، تاریخی و دینی کتب اور معلوماتی ذخیرہ شامل ہے۔ حکیم صاحب کا یقین تھا کہ علم کے بغیر انسان بصارت کے باوجود نابینا ہے۔ اسی یقین کے تحت انہوں نے بزم ہمدرد نونہال (1985ء) قائم کی جو بعد ازاں ہمدرد نونہال اسمبلی (1995ء) کی صورت میں نئی جہتوں سے متعارف ہوئی۔ یہ ادارہ آج بھی بچوں میں قومی شعور بیدار کرنے اور ان کی فکری تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔
نوجوانوں کی فکری و اخلاقی تربیت
حکیم صاحب نے نوجوان نسل کی ذہنی و اخلاقی آبیاری کے لیے آوازِ اخلاق کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اسی عنوان سے رسالہ بھی جاری کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر نوجوانوں کی نظریاتی سمت درست کر دی جائے اور ان کی سیرت سازی اعلیٰ اقدار کی بنیاد پر ہو تو معاشرہ ہر قسم کے بگاڑ سے محفوظ ہو سکتا ہے اور ایک مثبت و صحت مند انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔
ایک ہمہ جہت شخصیت
حکیم محمد سعیدؒ بلاشبہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ایک طرف وہ عظیم طبیب، محقق اور دواساز تھے تو دوسری جانب محبِ وطن، مفکر، مصلحِ قوم، ادیب اور نونہالانِ وطن کے مربی بھی تھے۔ ان کی شخصیت کا ہر پہلو قوم کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ تعلیم، صحت، ادب اور سماجی خدمات کے میدان میں ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
ان کا خونِ جگر پاکستان کی مٹی میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ ان کی شہادت نے اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ وہ اپنی آخری سانس تک عہدِ وفا نبھانے والے عاشقِ وطن تھے۔ بلاشبہ حکیم محمد سعیدؒ کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہیں صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔
ہمدرد ملت حکیم محمد سعیدؒ کا آج یوم شہادت ہے
