ادب اور ثقافت کی دنیا میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو اپنے اندر ایک پوری تہذیب، تاریخ اور روایت کا نور سموئے ہوتے ہیں۔ اُردو شاعری کی دنیا میں “اعظم گڑھ” کا نام ایسے ہی ایک روشن مینار کی مانند ہے جس کی روشنی کی اک کرن “دانش ضیا” نے ہندوستان سے نکل کر پوری دنیا کو اپنی ضیا سے منور کیا ہے۔ اور جب بات ہو شارجہ کے شاہی اور پر شکوہ مشاعرے کی، تو 23 اگست 2025 میں ہونے والے اس مشاعرے میں دنیا بھر کے عظیم شعرا، جن میں شامل فہیم اختر (یوکے) ، شکیل عظمی، جوہر کانپوری، شبینہ ادیب، حامد بھوسا والی، عزم شاکر، حمیرا گل تشؔنہ (امریکا)، پرویز اختر، افضل منگوری، فیض خلیل آبادی، میکش اعظمی، اختر اعظمی، طارق جمال، بھون موہنی، جہانوی سیگل، اشیکا چندیلیہ اور حنا عباس جیسے شعراء شامل ہوئے۔ جبکہ نظامت کے فرائض معروف رائے بریلوی نے ادا کیے۔ تو وہاں “بزم اعظم گڑھ” ایک ایسی پہچان بن گئی ہے جو نہ صرف اپنے کل کے ورثے پر فخر کرتی ہے بلکہ اپنے آج کے جوہر سے دنیا کو متاثر بھی کرتی ہے۔
اعظم گڑھ، جو اتر پردیش کا ایک ضلع ہے، کو اتفاق سے نہیں بلکہ اپنی ادبی اور شعری روایت کی وجہ سے “شہرِ شعر و ادب” کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دھرتی ہے جس نے ایسے عظیم الشان شعرا پیدا کیے جنہوں نے اُردو غزل اور نظم کو نئے آہنگ، نئے اسلوب اور نئے معنی عطا کیے۔ حسرت موہانی جیسے عاشقِ رسول اور انقلابی شاعر کا تعلق اسی خطے سے تھا، جن کی شاعری آزادی کی جدوجہد کا نقیب بھی تھی اور عشق و محبت کا استعارہ بھی۔ ان کے علاوہ بھی کئی نام ہیں جنہوں نے اعظم گڑھ کو ادبی نقشے پر روشن کیا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر آج کی نسل کھڑی ہے۔ یہاں کی فضا میں شعرو سخن کی معطر کیفیات بسی ہوئی ہیں۔ یہاں گھر گھر میں شعر و ادب کی محفلیں جمتی ہیں، شعری رجحانات پر بحث ہوتی ہے اور نوجوان نسل کو بزرگ شعرا کی سرپرستی حاصل ہے۔
متحدہ عرب امارات کا شہر شارجہ اپنی ثقافتی سرگرمیوں اور ادب و فن کے فروغ کے حوالے سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہاں ہر سال ہونے والا بین الاقوامی مشاعرہ دنیا بھر میں اُردو کے دلدادہ افراد کے لیے ایک تہوار کی مانند ہوتا ہے۔ اس مشاعرے کی شان و شوکت، انتظام و انصرام اور مدعو کریدہ شعرا کے معیار کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ محض ایک مشاعرہ نہیں ہوتا بلکہ اُردو زبان و ادب کی عظمت رفتہ کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہوتا ہے۔ شارجہ کی حکومت اسے ایک ثقافتی سفیر کی طرح پیش کرتی ہے، جہاں دنیا کے کونے کونے سے تعلق رکھنے والے شعرا اپنے کلام کے موتی بکھیرنے آتے ہیں۔ سٹیج کی رونق، سامعین کے ذوق و شوق اور میڈیا کے وسیع کوریج نے اس مشاعرے کو ایک “برانڈ” کی شکل دے دی ہے۔
جب شارجہ کے وسیع اور روشن سٹیج پر کوئی شاعر کھڑا ہوتا ہے تو وہ صرف اپنا کلام پیش نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ وہ حسرت موہانی کی زمین سے جڑی روایت اور ان کے اسلوب کی ایک جیتی جاگتی کڑی بن کر ابھرتا ہے۔ سامعین کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی فرد کو نہیں بلکہ ایک عظیم تاریخی سلسلے کو سن رہے ہیں۔
23 اگست 2025 کو شارجہ میں ہونے والے اس مشاعرے کی خاص بات صرف یہ نہیں تھی کہ یہاں پر موجود شاعر گوہر نایاب تھا۔ اور اس مالا کو پرونے میں معراج حیدر اور حسن کاظمی کی ادب سے پرخلوص محبت کا بہت اہم کردار ہے۔ اور اگر سچ کہا جائے تو یہاں کے سامعین بھی کسی طور کم نہ تھے۔ شعراء کو دل کھول کر داد دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش تھے۔ مشاعرہ تھوڑی تاخیر سے ختم ہوا لیکن پنڈال خالی نہیں ہوا۔ سامعین آخری لمحے تک مشاعرے میں بھرپور طریقے سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے اور شعراء پر داد کی صورت اپنی محبتوں کو نچھاور کرتے رہے۔
آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بزم اعظم گڑھ شارجہ کے مشاعرے میں صرف شعرا کا گروپ نہیں تھا یہ دراصل گنگا – جمنا کے خطے کی سچی لگن، شاعری کے سچے درد اور اپنی روایات سے والہانہ پیار کی ایک ایسی آماجگاہ تھی جس کی روشنی پورے عالم میں پھیلی ہے۔ یہ سفر جاری رہے، یہ دھنک اور بھی رنگین ہو، اور شارجہ و اعظم گڑھ کی دھرتی سے اٹھنے والی یہ آوازیں دنیا کے ہر گوشے میں اُردو شاعری کی شان بڑھاتی رہیں۔