**نانکسی دریا (Nanxi River)** چین کے **Zhejiang** صوبے میں واقع ہے اور **وینزو (Wenzhou)** شہر کے قریب ایک قدرتی جمالیاتی مقام ہے۔ یہ دریا اپنی قدرتی خوبصورتی، صاف پانی اور سرسبز ماحول کی وجہ سے مشہور ہے۔ نانکسی دریا کو “چین کا سب سے خوبصورت دریا” بھی کہا جاتا ہے، اور یہ قدرتی مناظر، پہاڑوں، آبشاروں اور آبی حیات کے لیے مشہور ہے۔ یہاں کا ماحول بہت سکون بخش ہے اور قدرت کے قریب ہونے کا احساس دیتا ہے۔
نانکسی دریا کی تاریخ چین کی قدیم ثقافت سے جڑی ہوئی ہے اور اس علاقے کی قدرتی خوبصورتی نے اسے ایک تاریخی مقام بنادیا ہے۔ اس علاقے میں چین کے قدیم فنون، معماری اور مذہبی اقدار کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ دریا کے قریب رہ کر اپنے روزمرہ کے کام کرتے ہیں اور یہ علاقہ مقامی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔
نانکسی دریا جانے کا ارادہ کرنا آسان تھا، لیکن جب سفر کی تفصیلات پر بات ہوئی تو میرے شوہر نے ایسے نقشے نکال لیے جیسے ہم مریخ پر پہنچنے کی تیاری کر رہے ہوں۔
“نانکسی دریا اتنا دور نہیں جتنا آپ کی نقشہ شناسی اسے بنا رہی ہے۔ ہم چین میں ہیں، مریخ پر نہیں!” میں نے مسکراتے ہوئے کہا
“یہاں راستے الجھے ہوئے ہیں، تھوڑی تیاری ضروری ہے۔” شوہر جی نے سنجیدگی سے کہا، میں نے چپ رہنے میں ہی عافیت جانی کیونکہ “راستے الجھے ہیں” کا مطلب عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ چینی میپ پہ لوکیشن دیکھتے دیکھتے ایک کپ چائے کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔
بالآخر ہم روانہ ہوئے۔ راستے میں چینی ریلوے اسٹیشن کی صفائی اور ترتیب نے مجھے متاثر کیا۔ “آپ کو لگتا ہے کہ یہاں ہمیں کوئی مدد کرنے والا ملے گا؟” میں نے پوچھا۔ شوہر جی نے ہنستے ہوئے کہا،
“یہ چین ہے، یہاں سب ایپس پر ہوتے ہیں، لوگ کم اور QR کوڈز زیادہ ملتے ہیں۔”
ٹرین میں داخل ہوتے ہی مجھے احساس ہوا کہ چینی عوام خاموشی سے سفر کرنے میں ماہر ہیں۔ “واقعی یہاں کوئی بھاگتا نہیں؟” میں نے حیرت سے کہا۔
“یہاں کی ٹرین وقت پر آتی ہے، لوگوں کو بھاگنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔” شوہر جی نے موبائل کی اسکرین ٹچ کرتے ہوئے جواب دیا۔
میرے دل میں فوراً پاکستانی ریلوے کے لیے ہمدردی جاگ اٹھی۔
نانکسی دریا کا سفر ہمارے لیے ایک الگ ہی تجربہ بننے والا تھا۔ وینزو شہر کی رونقوں سے نکل کر جب ہم نے نانکسی دریا کے آغاز یعنی *Yongjia County* کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو راستے کے نظارے ہی جیسے کسی خواب کا حصہ لگنے لگے۔ سبزے میں لپٹی پہاڑیاں، چھوٹے چھوٹے گاؤں، اور ہوا میں وہ تازگی جو صرف دیہی علاقوں کا خاصا ہے۔
“یہاں چین کے دیہی علاقے بھی اتنے خوبصورت ہیں؟”* میں حیرت سے بھاگتے ہوئے مناظر دیکھ رہی تھی۔
*”شاید اس لیے کہ یہاں لوگ سادگی سے جیتے ہیں اور قدرت کو برباد نہیں کرتے،”* شوہر جی نے فلسفیانہ انداز میں جواب دیا۔
کچھ دیر بعد ہم نانکسی دریا کے قریب پہنچے، جہاں ہمیں کشتی میں بیٹھنا تھا۔ وہاں موجود لکڑی کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں ایسی لگ رہی تھیں جیسے کسی پینٹنگ سے نکل کر یہاں آ گئی ہوں۔ کشتی بان ایک معمر چینی بزرگ تھے، جن کے چہرے پر جھریاں تھیں، مگر آنکھوں میں وہ چمک تھی جو تجربے سے آتی ہے۔
*”یہ کشتی ہم دونوں کو برداشت کر لے گی؟”* میں نے آہستگی سے شوہر جی کے کان میں کہا، کیونکہ وہ کشتی کسی قدیم داستان کی یادگار لگ رہی تھی۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، “کشتی تو ٹھیک ہے، مگر تمہارے بھاری سوالات اور چہکتے انداز سے کہیں کشتی کا توازن نہ بگڑ جائے!”
کشتی بان نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں سوار ہونے کو کہا۔ جیسے ہی کشتی روانہ ہوئی، دریا کی سطح پر ہلکی ہلکی لہریں پیدا ہوئیں، اور میں نے محسوس کیا جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔ پانی اتنا شفاف تھا کہ دریا کی تہہ میں تیرتی چھوٹی مچھلیاں بھی صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ چاروں طرف پہاڑوں کا سرسبز ہالہ، فضا میں پرندوں کی چہچہاہٹ، اور ہوا کی خنکی نے ماحول کو جادوئی بنا دیا تھا۔
*”کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ ہم چین کے کسی دریا پر کشتی میں بیٹھے عید منائیں گے؟”* میں نے خوشی سے کہا۔
*”نہیں، مگر زندگی تو انہی غیر متوقع لمحات کا نام ہے، ہے نا؟”* شوہر جی نے معنی خیز انداز میں جواب دیا۔
راستے میں ہم ایک پہاڑی موڑ سے گزرے تو دریا کنارے ایک چھوٹا سا چینی پگوڈا نظر آیا۔ *”یہ کیا خوبصورتی ہے!”* میں نے دل میں سوچا۔ کشتی بان نے بتایا کہ یہ پگوڈا صدیوں پرانا ہے اور کبھی مسافروں کے لیے آرام کی جگہ ہوا کرتا تھا۔ یہ سن کر مجھے پاکستان کے پہاڑی علاقوں کے چھوٹے چھوٹے *مسافر خانے* یاد آ گئے۔
دریا کے درمیان پہنچ کر کشتی آہستہ ہو گئی۔ چاروں طرف ایسی خاموشی چھا گئی کہ صرف دریا کے پانی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں نے گہری سانس لی اور کہا، *”یہی تو اصل عید ہے۔ نہ ہجوم، نہ شور، صرف قدرت کا سکون۔”* شوہر جی نے مسکراتے ہوئے میری بات کی تائید کی ۔
یہ سفر شاید گھنٹے بھر کا تھا، مگر اس ایک گھنٹے میں ہم جیسے ایک الگ دنیا کا حصہ بن گئے تھے۔ نانکسی دریا کے پانی میں جو سکون تھا، وہ کسی بھی شاپنگ مال، دعوت یا عید کی روایتی گہما گہمی میں نہیں مل سکتا تھا۔ یہ عید واقعی قدرت کے ساتھ گزارنے والی عید تھی۔
جب ہم نانکسی دریا کے قریب پہنچے تو ایسا لگا جیسے ہم کسی خواب میں داخل ہو گئے ہوں۔ چاروں طرف سرسبز پہاڑ، ہوا میں تازگی، اور دریا کا شفاف پانی جو سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ میں نے مسحور ہو کر شوہر جی کی طرف دیکھا، “یہ تو جنت جیسا منظر ہے!”
“بس دعا کرو کہ یہاں جنت جیسے ڈنر کا بندوبست بھی ہو!” میں نے قہقہہ لگایا اور دل ہی دل میں سوچا کہ یہ منظر کسی ڈنر کے بغیر بھی مکمل ہے۔ نانکسی دریا اپنی خاموشی اور خوبصورتی کے ساتھ خود ایک مکمل عید کا تحفہ تھا۔
نانکسی دریا کی ہلکی سی لہریں ہمارے قدموں کے نیچے سے سرک رہی تھیں اور کشتی میں بیٹھے ہم دونوں جیسے کسی اور دنیا میں جا پہنچے تھے۔ دریا کے پانی میں ہر طرف چھوٹی چھوٹی لہریں اٹھ رہی تھیں،جیسے پانی اپنی خوابیدہ سطح پر دھیرے دھیرے کروٹ لے رہا ہو۔ ہم ایک طویل سفر کے بعد یہاں پہنچے تھے، اور اب یہاں کی خاموشی میں ڈوب کر ایک خوبصورت شام گزارنے کا ارادہ کر رہے تھے۔
”پانی کا رنگ کتنی عجیب سی خاموشی میں ڈوب رہا ہے!” میں نے آہستہ سے کہا۔
“ہاں، مگر مجھے بھوک لگ رہی ہے اور تمھیں کھانے کی فکر نہیں، بس ان مناظر میں ہی کھو گئ ہو “ چلو آؤ حلال ریسٹورنٹ تلاش کرتے ہیں “ بالآخر تھوڑی سی تلاش کے بعد ، ہمیں یہاں ایک حلال ریسٹورنٹ مل گیا ۔
اب ہم نانکسی دریا کے کنارے ایک چھوٹے سے حلال ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ جہاں چینی کھانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ذائقوں کا وعدہ بھی تھا۔ دریا کی نرم ہوا، کھانے کی خوشبو اور خوشگوار ماحول—یہ سب کچھ دل کو بڑی راحت دے رہا تھا۔مگر ایک سوال تھا جو دماغ میں چل رہا تھا— کیا واقعی یہ چینی کھانے ہمارے پاکستانی ذائقوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
“کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ چینی کھانوں کا ذائقہ ہمارے پاکستانی پکوانوں کے مقابلے میں کیسا لگتا ہے؟” میں نے ذرا توقف سے سوال کیا ، جیسے کسی سنجیدہ طعامی تحقیق کا آغاز کر رہی ہوں
“پہلے تم یہ بتاؤ، کیا چینی کھانوں میں وہ مصالحہ اور تیز ذائقہ ہے جو ہمارے پکوانوں کی روح ہے؟” شوہر جی نے طنزیہ انداز میں بجائے جواب کے سوال ہی کردیا
“سچ پوچھیں ، تو نہیں!” میں نے فوراً جواب دیا۔ “اگر چینی کھانوں میں اس بات کی کمی نہیں ہوتی، تو شاید میں اس وقت بریانی کے بارے میں نہ سوچتی!”
“ہاہاہا چائنیز ریسٹورنٹ اور بریانی ۔۔۔ “ دوسری طرف طویل قہقہہ تھا-
“ہاں، وہی کراچی کی بریانی، جس کا مزہ بچپن سے زبان پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی خوشبو اور ذائقہ ہمارے ذوق میں ہمیشہ کے لیے بسا ہو۔ جس میں خوشبو کا ایک طوفان ہوتا ہے، چاولوں کی تہوں میں گوشت چھپ کرسنہری زرد رنگ میں چمکتا ہے، سلاد اور رائیتے کے ساتھ اس کا ذائقہ تو گویا زبان پر جادو کر دیتا ہے۔ لیکن یہاں چینی کھانوں میں اس قسم کی شدت نہیں ہے۔ ان کے کھانے نرم، ہلکے اور بعض اوقات تو ایسے لگتے جیسے آپ کسی سرسبز وادی میں جا کر بیٹھ گئے ہوں، جہاں صرف سبزیاں اور تھوڑی سی مچھلی کا مزہ آ رہا ہو۔” میں نے منہ بناتے ہوئے کہا
“اور پائے؟” میں نے شوہر جی کی طرف رخ کر کے سوال کیا، “کیا یہاں پائے ہیں؟”
“پائے؟ یہاں تو شاید پائے کے بارے میں بھی کسی نے نہ سنا ہو!” شوہر جی نے ہنستے ہوئے کہا۔
“نہیں، پائے یہاں بھی پائے جاتے ہیں!” ریسٹورنٹ کے مالک نے بتایا تھا ، “مگر ان میں چینی طریقے سے گوشت اور ہلکے مصالحے استعمال کیے جاتے ہیں۔” میں نے کہا
اور پھر ہم نے پائے ، چائنیز رائس، چائنیز کباب، نوڈلز، اور مچھلی کا آرڈر دیا۔ جب کھانا آیا تو میں نے ایک گہری سانس لی اور شوہر جی سے مسکراتے ہوئے کہا، “یہ چائنیز کھانے، کیا ہماری بریانی، نہاری اور پائے کا مقابلہ کر پائیں گے؟ چائنیز رائس دیکھ کر تو دل میں تھوڑی سی ہنسی آئی۔ “یہ دیکھیں ، چائنیز رائس ہماری بریانی کے سامنے یہ بے رنگ اور بے ذائقہ نظر آ رہا ہے؟ کہاں بریانی کا رنگ اور خوشبو، یہ رائس تو بالکل سفید اور معصوم لگتے ہیں ۔۔۔
“یہ چائنیز رائس کم از کم پیٹ میں آسانی سے اتر جائے گا، تمہاری بریانی میں تو اتنی تیزی ہوتی ہے کہ کبھی کبھی دل اور معدے دونوں کو شکایت ہو جاتی ہے “ شوہر جی نے ہنستے ہوئے کہا
پھر چائنیز کباب کی باری آئی۔ “یہ کباب دیکھیں ! “ہماری چکن تندوری کباب اور چپلی کباب کے سامنے، یہ کتنے بے جان لگتے ہیں! جہاں ہمارے کبابوں میں ذائقے کا آتش فشاں ہوتا ہے، یہ چائنیز کباب جیسے نرم، ہلکے اور بہت زیادہ مہذب لگتے ہیں۔”میں نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
”مگر، ان میں کم از کم صحت کا خیال رکھا گیا ہے”چائنیز کباب، کم گھی اور کم مصالحے سے تیار ہوتے ہیں، تاکہ تمہیں پچھلے کھانے کے بعد سونے کی ضرورت نہ پڑے “ شوہر جی نے فورا جواب دیا۔
پھر نوڈلز کا وقت آیا۔ “یہ نوڈلز کا ذائقہ سب سے اچھا ہے “ میں نے چوپ اسٹک سے نوڈلز ٹرائ کرتے ہوئے کہا “
“کیونکہ یہ بائے برتھ چائنیز جو ہیں ۔۔۔ شوہر جی نے بے ساختہ کہا اور پھر دونوں ہنسنے لگے
بالکل یہ کھانے ہمارے پائے اور نہاری کے مقابلے میں کچھ نہیں ہیں!” “پائے کا جو ذائقہ ہوتا ہے، اس میں گوشت کی گہرائی، مسالوں کی شدت، اور نرم گوشت کے ریشوں کا جو مزہ ہوتا ہے، وہ نوڈلز میں کہاں! اور پھر نہاری! وہ اتنی ریشمی، گھی سے چمک رہی ہوتی ہے کہ جب آپ کے چمچ میں آتی ہے، تو لگتا ہے کہ کوئی جواہرات ہیں!”
شوہر جی نے ہنستے ہوئے کہا، “تمہاری نہاری کی شان، کمال ہے! اور پائے، وہ تو بالکل بھی ان نوڈلز کے مقابلے میں نہیں آ سکتے۔”
آخرکار مچھلی کا وقت آیا۔ “یہ چائنیز مچھلی بھی ہماری فرائ مچھلی کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکی !” میں نے کہا، “ہماری مچھلی میں وہ مسالوں کی شدت اور کھٹی میٹھی خوشبو ہوتی ہے، جو چائنیز مچھلی میں کہاں؟
مگر یہ چائنیز مچھلی زیادہ ہلکی اور تازہ ہے!” شوہر جی نے جواب دیا ۔”
“یہ تو ابھی بھی شوربے میں تیر رہی ہے ، مچھلی پانی میں رہتی ہے ۔ شاید اس لیے چائنیز اسے شوربے میں ہی ہمیشہ بناتےہیں۔
میں نے کانٹے سے مچھلی کو الٹتے پلٹتے ہوئے سوال کیا
کم از کم اس میں وہ تیز مصالحے نہیں ہیں جو آپ کے بنائے ہر کھانے میں ملتے ہیں، ویسے مچھلی کا یہ سوپ ہے مزے کا “ شوہر جی نے منہ بناتے ہوئے اس ڈش کی تعریف کی
اور پھر آخری ڈش جو ہم نے فقط ٹیسٹ کے لیے منگوائ تھی کہ دیکھتے ہیں کیسی ہوگی وہ تھے پائے ، جب میں نے چینی پائے چکھے، تو دل میں وہی شک پیدا ہوا جو انسان کے اندر نئے تجربات کے دوران ہوتا ہے—یہ پائے تو اتنے نرم اور ہلکے تھے کہ جیسے اس میں مصالحے کا ذائقہ گم کر دیا ہو۔
“کیا یہی پائے ہیں؟” میں نے شوہر جی سے کہا، “ان میں وہ طاقت کہاں جو پاکستانی پائے میں ہوتی ہے؟ جو ایک ہی نوالے سے دل کی دھڑکن تیز کر دے؟” میرا سوال تھیکا سا تھا ۔
“یہ پائے پاکستانی نہیں ہیں، یہ چینی پائے ہیں، اور ان کا ذائقہ تمہیں پاکستانی پکوانوں کے مقابلے میں ہلکا ہی لگے گا!” اس بار جواب بڑا پھیکا سا آیا تھا
آخرکار، جب ہم نے یہ سب چکھ لیا ، تو ہنستے ہوئے کہا، “چائنیز کھانے، ایک طرف اور ہماری روایتی پکوان، دوسری طرف۔ ان میں سادگی اور تازگی ہے، مگر پاکستانی کھانوں کا ذائقہ، وہ دل کو چھو لیتا ہے۔”
“میرے خیال میں اب چلنا چاہئے ویسے فریج میں رات کا بچا ہوا کچھ ہوگا “ شوہر جی نے بیزاری سے کہا ۔ یہ وہ سوال تھا جو ہر بار چائنیز ریسٹورنٹس سے اٹھتے ہوئے ذہن میں آتا ہے کیونکہ چائنیز کھانوں سے پیٹ بھر جاتا ہے مگر دل نہیں۔۔۔
“اچھا آج عید کا دن ہے کچھ میٹھا تو منگوادیں ۔۔۔ “ میں نے ریکویسٹ کی
“ ہو تو گیا میٹھا میٹھا۔۔ ہمارے ارد گرد اتنے چینی ۔۔۔۔۔۔ “ جملہ ادھورا تھا
“جی میں سمجھ گئ چلئے گھر چلتے ہیں ۔۔۔۔ “ میں نے پرس سنبھالتے ہوئے کہا
ریستوران سے نکلتے وقت رات کا اندھیرا گہرا ہو چکا تھا، مگر ہمارے چہروں پر ہلکی سی روشنی تھی، وہ روشنی جو ایک اچھی عید گزارنے کی خوشی سے آتی ہے۔ ہوا میں خنکی بڑھ چکی تھی، اور میں نے شال اچھی طرح لپیٹ لی۔ شوہر جی نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور پوچھا۔
“تو کیسا لگا آج کا دن؟ چینی کھانے یادگار رہے یا پاکستانی بریانی کی اقسام ذہن پر حاوی ہو گئیں؟”
“بریانی تو دل کی دھڑکن میں بسی ہوئی ہے، وہ میں خود بنا کر آپ کو کھلاؤں گی، لیکن ماننا پڑے گا، آج کا دن بھی کسی بھرپور ذائقے دار پکوان سے کم نہیں تھا!”
گھر پہنچے تو تھکن کے باوجود دل عجیب سا ہلکا اور خوش تھا۔ یہ عید شاید پاکستان جیسی نہیں تھی، نہ وہ رونق، نہ گلیوں میں بچوں کی دوڑیں، نہ مسجد کے میناروں سے بلند ہونے والی تکبیریں۔ مگر اس عید میں کچھ اور خاص تھا۔ ایک نئی دنیا کو جاننے کا تجربہ، نئے چہروں کے ساتھ کچھ پرانی یادوں کو بانٹنے کا لمحہ، اور ساتھ یہ احساس کہ خوشیاں کہیں بھی ہوں، مل بانٹ کر ہی مکمل ہوتی ہیں۔
شوہر جی نے چائے کا کپ ہاتھ میں لیتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا، “ویسے اگر کل پھر وہی چینی کھانوں کا ذائقہ آزمانا ہے، تو میں ابھی سوچ لوں کہ بچنا کیسے ہے!”
میں نے مسکرا کر کہا، “یہی تو اصل مزہ ہے، کبھی مزہ مصالحے میں، کبھی زندگی کے چھوٹے چھوٹے لمحوں میں۔ آج کی عید اسی لیے یادگار رہے گی۔” یوں، مسکراہٹوں اور شوخیوں کے ساتھ عید کا دن ختم ہوا، مگر یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔
چین میں عید کا دن ہمارے لۓ یادگار بن گیا……ارم زہرا
