رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے۔ وہ عشرہ جب وقت کی رفتار جیسے تھم سی جاتی ہے، دن کی تپتی ہوئی ساعتیں دھیرے دھیرے گھلتی ہیں، اور دل میں ایک عجیب سی اداسی اترتی ہے۔ کراچی، لاہور یا کسی بھی مسلم شہر میں ہوتی تو شاید یہ اداسی کم ہوتی۔ وہاں ہر طرف رمضان کی رونقیں ہوتیں—سحری کی آوازیں، افطاری کی چہل پہل، مسجدوں میں تراویح کے لیے اُمڈتی ہوئی بھیڑ، اور وہ سڑکیں جو رات دیر تک عبادت گزاروں، دعا مانگنے والوں اور چائے کے کپ تھامے لوگوں سے آباد رہتی ہیں۔
مگر یہاں چین میں، رمضان کسی پرانی کتاب کے بوسیدہ صفحے کی طرح خاموش ہے۔ نہ کوئی خاص تبدیلی، نہ بازاروں میں کوئی ہلچل، نہ افطار کی رونقیں۔ زندگی کی رفتار وہی ہے جو ہر روز ہوتی ہے—دفاتر وقت پر کھلتے ہیں، ٹریفک اپنی دھن میں بہتا ہے، لوگ صبح سے شام تک اسی معمول میں جیتے ہیں جیسے کسی کو احساس ہی نہ ہو کہ ایک مقدس مہینہ اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ گزر رہا ہے۔ اور شاید یہی خاموشی مجھے اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کر رہی ہے۔
اور آج، اسی خاموشی میں، میرے ذہن کے دریچے میں ایک یاد شدت سے ابھری ، دیوارِ چین کا وہ دن، جب میں نے تاریخ کے اس عظیم شاہکار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ میرے ساتھ کے لوگ، جو اس گروپ کا حصہ تھے، اسے سکون کی تلاش کا سفر کہہ رہے تھے۔ ان کے لیے یہ ایک روحانی تجربہ تھا، ایک ایسا لمحہ جہاں وہ تاریخ، فطرت اور خاموشی میں اپنے اندر کا سکون ڈھونڈ رہے تھے۔
لیکن میرے لیے سکون کی تلاش کسی طویل مسافت، کسی قدیم دیوار، یا کسی روحانی مقام کی محتاج نہیں تھی۔ میرے لیے تو سکون وہ تھا جو اللہ نے مجھے عطا کیا—عبادت میں، رمضان کی برکتوں میں، سجدوں کی گہرائی میں۔ جو راحت یہ لوگ پہاڑوں اور پرانی اینٹوں میں ڈھونڈ رہے تھے، وہ میرے دل کو مسجد کی خاموشی میں ملتی ہے، سحری کی پہلی روشنی میں، افطار کی پہلی دعا میں۔
تو آئیے، آپ کو لیے چلتی ہوں چینیوں کے سکون کی اُس وادی میں ، جہاں ہر راہ مسافر کے دل کے مطابق اپنا مفہوم بدل لیتی ہے۔
چین ایک ایسی سرزمین جہاں وقت کی گردش نے ایک عظیم تہذیب کو جنم دیا تھا، جہاں دیوارِ چین کے پتھروں میں تاریخ دفن تھی، جہاں بیجنگ کے شاہی محل کی سرخ دیواروں پر گزرے وقت کی بازگشت سنائی دیتی تھی، جہاں شاولن مندر میں مارشل آرٹس کے رموز سیکھے جاتے تھے، اور جہاں تبت کے مندر سکون کی گواہی دیتے تھے۔
میں نے ہمیشہ کتابوں میں پڑھا تھا کہ یہ دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے، لیکن جب میں خود وہاں کھڑی ہوئی، تو یہ کسی خواب سے کم نہ تھا۔ پہاڑوں پر بل کھاتی، صدیوں پرانی اینٹوں سے بنی یہ دیوار، وقت کے تھپیڑے سہتے سہتے اب بھی اپنی عظمت کا اعلان کر رہی تھی۔
ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی، جیسے تاریخ کی سرگوشیاں میرے کانوں میں رس گھول رہی ہوں۔ کہ “یہ دیوار چین نہیں، یہ دیوارِ حقیقت ہے، جہاں تک پہنچنا تو دور کی بات، سمجھنا بھی بہت مشکل ہے!
دیوار چین، جو اتنی مشہور ہے کہ اگر آپ چین میں ہوتے ہوئے اس کو نہ دیکھیں، تو گویا آپ چین گئے ہی نہیں۔ لیکن اس دیوار کا تاریخ سے رشتہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جیسے کسی محلے میں کھڑی ہوئی ایک پرانی عمارت جس کی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور چھپی ہوتی ہے۔
دیوار چین کوئی معمولی دیوار
نہیں ہے۔ اس کی تاریخ کا آغاز تقریباً 211
قبل مسیح میں ہوا، جب چین کے پہلے شہنشاہ شیہوانگ دی نے سوچاکیوں نہ کچھ ایسا کیا جائے کہ چین کے شمالی خانہ بدوشوں کو سلیمانی ٹوپی والے چینیوں کی چھاؤں میں آنا محال ہو جائے؟ اور اس نے شروع کر دی ایک دیوار کی تعمیر۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے اور سر پر ان گنت مزدوروں کی تکلیفیں، کیونکہ یہ دیوار نہ صرف چین کی حفاظت کے لیے تھی بلکہ اس میں اتنی محنت بھی تھی کہ اگر آج کے دور میں یہ بن رہی ہوتی تو شاید اس کے گرد و نواح میں ایک “دیوار چین” نامی فائیو اسٹار ہوٹل بھی ہوتا۔
پھر آتا ہے ہان سلطنت کا دور۔ وہ دیوار کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں، لیکن کچھ اس انداز میں کہ زیادہ کچھ نہیں بدلتا، بس تھوڑا سا “سٹائل” بدل جاتا ہے۔ ہاں اور پھر مینگ سلطنت کے دور میں دیوارِ چین کا نقشہ ہی بدل گیا، جیسے آج کے فیشن کی دنیا میں محنت اور لگن کی جگہ صرف ظاہری چمک دمک نے لے لی ہو۔ دیوار میں پتھر اور اینٹیں لگا دی جاتی ہیں، قلعے بنائے جاتے ہیں، اب یہ دیوار صرف چین کی سرحد نہیں، بلکہ ایک “ٹورسٹ اٹریکشن” بن چکی ہے۔
آخرکار، چنگ سلطنت آتی ہے، اور وہ دیوار چین کی تو زیادہ فکر نہیں کرتے، کیونکہ ان کے خیال میں “اب یہ دیوار بس ایک خوبصورت یادگار بن گئی ہے، کسی اور کے لیے تو شاید خطرے کی علامت ہو، لیکن ہم تو اس سے زیادہ ترقی کر چکے ہیں۔”
تو یوں، دیوار چین ایک نہ ختم ہونے والی کہانی بن گئی، جہاں ہر دور نے اسے مختلف انداز میں اپنایا، کبھی اسے حفاظت کا نشان بنایا، کبھی اس کے گرد سیاحوں کا ہجوم لگایا، اور کبھی صرف ایک گہرا تاثر چھوڑا۔
آج، دیوار چین صرف پتھروں کا ایک ڈھیر نہیں، بلکہ ایک ایسی ثقافت کی علامت بن چکی ہے، جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دفاع کے لیے صرف دیواریں نہیں، بلکہ عزم، محنت اور ترقی بھی ضروری ہیں۔
دیوارِ چین سے اترنے کے بعد میرا اگلا پڑاؤ *بیجنگ کا شاہی محل* تھا۔ وسیع و عریض دروازے، سنہری چھتیں، اور وہ راہداری جس میں بادشاہوں کے قدموں کی چاپ کبھی گونجا کرتی تھی۔ میں ان کمروں میں گھومتی رہی جہاں کبھی شہنشاہ فیصلے سنایا کرتے تھے۔ مجھے لگا جیسے یہ دیواریں اب بھی ان کے راز چھپائے بیٹھی ہیں۔
بیجنگ کا شاہی محل، جسے ممنوعہ شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، چین کی تاریخ کا ایک ایسا جوہر ہے جس کی چمک ہر زاویے سے نظر آتی ہے۔ جیسے ہی میں نے اس عظیم و شان دروازے کی طرف قدم بڑھایا، مجھے محسوس ہوا کہ میں نہ صرف ایک عمارت کے اندر داخل ہو رہی ہوں، بلکہ ایک ایسی دنیا میں قدم رکھ رہی ہوں جہاں تاریخ کی ہر گلی، ہر کمرہ، ہر دروازہ اپنی کہانی سناتا ہے۔
محل کا دورہ کرتے ہوئے، میں نے سب سے پہلے ان سنہری چھتوں کو دیکھا، جو اتنی چمکدار تھیں کہ مجھے لگا شاید یہ کسی شہنشاہ کا غرور ہے، جو اپنی زندگی میں اتنا چمکدار تھا کہ آج بھی ان کی چھتیں اُسے فالو کر رہی ہیں۔ اور پھر وہ سرخ دروازے، جنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے دروازے بھی آپ کو اپنے اندر کھینچنے کے لیے کہتے ہوں، “آ جاؤ، اندر آ جاؤ! دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا راز تمہارے سامنے ہے!”۔
لیکن جب میں اندر گئی تو وہ حقیقت سامنے آئی جو شاہی محل کی دیواروں نے چھپائی ہوئی تھی۔ محل میں موجود ہر کمرہ اتنا بڑا تھا کہ آپ اس میں گم ہو جائیں اور پچھلے کمرے میں جانے کی کوشش کرتے ہوئے نئے کمرے میں آ جائیں۔ میں سوچنے لگی، “یہ محل نہیں، یہ تو ایک ایسا چیلنج ہے جس کا مقصد ہی انسان کو یہ سکھانا ہے کہ آپ کے قدم کہاں جا رہے ہیں؟”
ممنوعہ شہر کی تعمیر کا آغاز 1406 میں ہوا تھا۔ یہاں ایک شہنشاہ نے اپنی سلطنت کا مرکز بنایا تھا، جہاں صرف شہنشاہ، اس کے خاندان اور درباریوں کو قدم رکھنے کی اجازت تھی۔ اس شہر کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ یہ محض ایک شاہی محل نہیں بلکہ ایک ریاست کی علامت بن چکا تھا، جہاں ہر کمرہ، ہر دروازہ ایک مخصوص مفہوم رکھتا تھا۔ جب میں محل کے اندر گھوم رہی تھی، تو ہر قدم پر مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ ان چمکدار دروازوں، سنہری چھتوں اور شاندار راہداریوں میں جیسے ایک پوری سلطنت کی داستان چھپی ہوئی ہو۔
جب میں شاہی محل کے دروازے سے گزر رہی تھی، تو میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا، “یہ محل آخر اتنا عظیم کیوں تھا؟” کیا یہ محل صرف ایک جاہ و جلال کی علامت تھا؟ یا پھر یہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اقتدار کبھی بھی مستقل نہیں ہوتا؟ جب میں نے اس محل کی عمارتوں کو غور سے دیکھا، تو میں نے محسوس کیا کہ ان میں سے ہر ایک دروازہ، ہر ایک کمرہ، اور ہر ایک ستون اس بات کا غماز تھا کہ انسان چاہے جتنا بھی عظیم ہو جائے، اسے کبھی نہ کبھی تاریخ کے صفحات میں ہی گم ہو جانا ہوتا ہے۔
یہ محل، جو ایک وقت میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا مرکز تھا، آج ویران پڑا ہے۔ اس کے اندر چھپے ہوئے تمام راز، وہ فیصلے جو اس کے کمروں میں کیے گئے، وہ ملاقاتیں جو ان دروازوں میں ہوئیں، آج سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ مگر جب میں ان راہداریوں میں چلتی ہوں، تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک وہ گمشدہ آوازیں ان کی دیواروں میں گونج رہی ہیں، جیسے ان کی طاقت اور شان و شوکت ابھی تک ان دروازوں کے پیچھے چھپے ہوں۔
بیجنگ سے نکل کر میں *شاولن مندر* پہنچی، جو مارشل آرٹس کا مرکز تھا۔ وہاں ننھے راہب اپنے اساتذہ سے قدیم فن سیکھ رہے تھے۔ ہر حرکت میں مہارت، ہر وار میں توازن۔ میں نے ایک بزرگ استاد سے پوچھا، “یہ سب سیکھنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟”
وہ مسکرا کر بولے، “اصل طاقت وہ ہوتی ہے جو صبر سے حاصل ہو۔”
شاولن مندر، چین کا وہ مقام جہاں طاقت اور صبر کا ایک نہ ختم ہونے والا رقص جاری ہے۔ جب میں نے وہاں قدم رکھا، تو ایسا لگا جیسے میں کسی اور دنیا میں آ گئی ہوں۔ یہاں کے درخت، پتھر، اور وہ پرانی دیواریں، سب کچھ کسی راز کی طرح مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھیں ۔ ایک ایسی دنیا، جہاں دکھاوا نہیں تھا، جہاں ہر چیز اپنی اصل حقیقت میں تھی.
پہلے تو میں نے سوچا کہ یہاں آ کر شاید مجھے مارشل آرٹس کے کچھ کرتب دیکھنے کو ملیں گے۔
لیکن جب میں نے ان شیر دل جنگجوؤں کو دیکھا، جو دن رات سخت تربیت میں مصروف تھے، تو مجھے احساس ہوا کہ یہ لوگ صرف طاقت کے نشان نہیں، بلکہ ان کی اصل طاقت ان کے صبر میں چھپی تھی۔ جو لوگ یہاں آ کر دن رات اپنے جسم کو تھکاتے ہیں، وہ بس ایک مقصد کے لیے، اپنی داخلی قوت کو دریافت کرتے ہیں۔
میں نے یہاں ایک نوجوان پہلوان کو دیکھا، جو پتھروں پر تیز تیز پنکھے جیسے ہاتھ مار رہا تھا، میں نے حیرانی سے اس سے سوال کیا ، “یہ اتنی طاقت کہاں سے آتی ہے؟” اُس نے مسکرا کر جواب دیا، “یہ صرف طاقت نہیں، یہ صبر ہے۔ تم اپنے جسم سے زیادہ اپنے دماغ پر قابو پاؤ، اور پھر دیکھو تمہیں کیا نہیں ملتا۔”
یہ بات میرے دل میں گونجتی رہی، اور میں نے محسوس کیا کہ یہاں طاقت کا کوئی دکھاوا نہیں تھا۔ یہاں کے ہر حصے میں ایک خاموش گواہی تھی کہ اصل قوت صرف جسمانی نہیں، بلکہ ذہنی سکون میں ہے۔ جب تک آپ کا دماغ پُرامن نہیں، آپ کا جسم کبھی پوری قوت سے نہیں چل سکتا۔ شاولن مندر میں آپ کو سکھایا جاتا ہے کہ صرف جسمانی طاقت ہی نہیں، اندر کا سکون اور صبر بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
میں نے مندر کے ایک کمرے میں ایک اور فولادی انسان کو مراقبے کی حالت میں بیٹھے دیکھا۔ میں نے پوچھا، “آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟” اس نے بتایا ، ” میں اپنی طاقت کو ڈھونڈ رہا ہوں، لیکن اس کا راز تمہاری بے چینی میں نہیں، تمہاری سکون کی حالت میں چھپا ہے۔” میں سوچنے لگی کہ وہ شاید مذاق کر رہا ہے، لیکن پھر مجھے اس کی آنکھوں میں وہ سکون نظر آیا جو میں نے کبھی کسی میں نہیں دیکھا تھا۔
اور جب میں نے شاولن کی راہداریوں میں چلتے ہوئے وہاں کے درختوں کے نیچے بیٹھ کر اپنی آنکھیں بند کیں، تو اچانک مجھے یہ احساس ہوا کہ جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے، وہ طاقت نہیں بلکہ صبر ہے۔ یہ وہ طاقت تھی جو آپ کو مشکلات کا سامنا کرتے وقت بھی بے خوف رکھتی ہے، یہ وہ طاقت تھی جو آپ کو اپنے اندر کی دنیا کو سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔
شاولن مندر نے مجھے یہ سکھایا کہ زندگی میں اگر آپ واقعی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو جسم سے زیادہ اپنے دماغ کی قوت پر کام کریں، کیونکہ جب آپ کا دماغ پُرامن ہوتا ہے، تو آپ کا جسم بھی آپ کی ہر بات پر عمل کرتا ہے۔ اور یہی سچائی تھی جو میں نے وہاں کے مونسٹرز سے سیکھی: طاقت اور صبر کا کھیل کبھی بھی جسمانی نہیں ہوتا، یہ صرف دل اور دماغ کا کھیل ہوتا ہے۔
میری آخری منزل تھی *تبت*، جہاں بدھ مت کے مندر اور برف سے ڈھکی وادیاں مجھے کسی اور ہی دنیا میں لے گئے۔ پوتالا پیلس کے سامنے میں نے اس خاموشی کو محسوس کیا جو روح کے اندر تک اترتی تھی۔ یہاں میں نے ایک بھکشو سے پوچھا، ” لوگ یہاں کیا تلاش کرنے آتے ہیں؟”
اس نے کہا، “سکون۔”
میں نے ہمیشہ سنا تھا کہ تبت کوئی عام جگہ نہیں، بلکہ ایک خواب ہے، ایک ایسا خواب جو جاگتی آنکھوں سے دیکھا جائے تو بھی حقیقت کم اور جادو زیادہ لگتا ہے۔ وہ سنہری چھتوں والے مندر، برف میں لپٹے پہاڑ، اور وہ خانقاہیں جہاں وقت جیسے سانس لینا بھول جاتا ہے۔ مگر تبت کا یہ سحر مجھے کب اپنی طرف کھینچ رہا تھا، یہ اندازہ تب ہوا جب میں نے واقعی اس کی طرف سفر کا آغاز کیا مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی اور سیارے کی طرف جا رہی ہوں۔ جہاز نے جیسے ہی تبت کی حدود میں داخل ہونا شروع کیا، میں نے کھڑکی سے نیچے دیکھا تو پہاڑوں کی وہ قطار نظر آئی جو بادلوں کو چیر کر کھڑی تھی۔ ماؤنٹ ایورسٹ کی جھلک دور سے نظر آئی، اور میرے دل نے خوشی سے ایک دھڑکن مس کر دی۔ میں نے خود سے کہا، “تو یہ ہے وہ دنیا کی چھت، جہاں ہوائیں بھی شاید عام جگہوں سے زیادہ مقدس ہیں۔”
لہاسا ایئرپورٹ ایک چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت ایئرپورٹ ہے جو دنیا کے سب سے بلند ترین ایئرپورٹس میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا انوکھا مقام اور فضا یہاں کے منفرد قدرتی ماحول کو محسوس کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
لہاسا ایئرپورٹ پر اترتے ہی ایک عجیب سی خاموشی نے استقبال کیا۔ کراچی میں تو ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی سو رنگوں، سو آوازوں کا سیلاب آ جاتا ہے، لیکن یہاں ایسا لگا جیسے دنیا نے خود کو ایک لمحے کے لیے روک لیا ہو۔ آسمان نیلا تھا، ایسا نیلا جو میں نے کبھی کسی تصویر میں بھی نہیں دیکھا تھا، اور ہوا میں ہلکی سی یخ ٹھنڈک جیسے کوئی قدیم راز میرے کان میں سرگوشی کر رہا ہو۔
میری پہلی منزل تھی *پوتالا پیلس*، وہی جگہ جہاں کبھی دلائی لاما رہا کرتے تھے۔ سرخ اور سفید دیواروں والا یہ محل پہاڑ کی چوٹی پر ایسے کھڑا تھا جیسے کسی راہب کی دعا میں بلند ہوتے ہاتھ۔ اندر داخل ہوئی تو لگتا تھا جیسے ماضی کی سانسیں آج بھی ان راہداریوں میں قید ہوں۔ سنہری چھتوں کے نیچے جلتی ہوئی مکھن کی خوشبو میں لپٹی ہوئی موم بتیاں، لکڑی کے پرانے فرش، اور بدھ مت کے راہب جو آج بھی وہی دعائیں پڑھ رہے تھے جو صدیوں سے یہاں گونج رہی تھیں۔
ایک راہب مجھے دیکھ کر مسکرایا، میں نے پوچھا، “یہاں کے لوگ اتنے پُرسکون کیوں ہیں؟”
اس نے ہلکے سے سر جھکایا اور کہا، “کیونکہ ہم وقت کو قابو میں نہیں کرتے، اسے گزرنے دیتے ہیں۔”
یہ جملہ میرے دل پر ایسے آ کر گرا جیسے پہاڑ سے گرتی برف کی ایک نرم تہہ۔ ہم ہر لمحہ وقت کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، ایک میٹنگ سے دوسری، ایک سگنل سے اگلے سگنل، ایک خواب سے دوسرے خواب کی دوڑ میں۔۔۔۔۔
اس کے بعد میں *جوکھانگ مندر* گئی۔ تبتی ثقافت کا یہ قدیم اور روحانی مقام میرے سامنے تھا، اور میں نے دیکھا کہ سرخ لباس پہنے بدھ راہب گہری خاموشی میں مراقبے میں مصروف تھے۔ ان کے چہرے پر ایک عجب سکون تھا، جیسے وہ دنیا کی ہلچل سے بالکل آزاد ہوں۔
میں بھی ان کے قریب جا کر بیٹھ گئی، کہ ان سے کوئ سوال کروں لیکن وہ آنکھیں بند کیے اپنی دنیا میں گم تھے ۔
میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلیں مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ خاموشی میں بھی ایک زبان ہوتی ہے، ایک ایسی زبان جو لفظوں سے زیادہ گہری بات کرتی ہے۔ ایسا لگا جیسے وقت تھم گیا ہو، جیسے کائنات اپنی مخصوص دھڑکن میں مجھ سے کوئی راز کہہ رہی ہو۔
اس خاموشی میں مجھے اپنے دل کی دھڑکنیں سنائی دینے لگیں —وہ دھڑکن جو مجھے میرے اپنے رب کی یاد دلاتی ہے۔ میں نے سوچا، *الحمدللہ، میں ایک مسلمان ہوں، اور اللہ نے مجھے سکون کے لیے اپنی عبادت عطا کی ہے۔ مجھے کسی اور راہ کی تلاش نہیں، کیونکہ میرے سکون کا سفر تو نماز کے سجدوں میں اور رمضان کی برکتوں میں مکمل ہوتا ہے۔
مجھے احساس ہوا کہ دنیا کے ہر مذہب اور ہر روحانی مقام کی اپنی خوبصورتی اور سکون ہوتا ہے، لیکن میرا دل جس سکون کا متلاشی تھا، وہ پہلے ہی میرے پاس تھا—میرے دین کی روشنی میں، میرے رب کی قربت میں۔ میں نے آنکھیں کھولیں، ایک گہری سانس لی، اور اپنے دل میں شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ وہاں سے نکل آئی۔
میں نے سوچا، شاید یہ وہی سکون ہے جو رمضان کی آخری راتوں میں ہمیں ملتا ہے، جب دل ہلکا ہو جاتا ہے، جب آنکھیں خود بخود بھیگ جاتی ہیں، جب ہر دعا سچ لگنے لگتی ہے۔
رمضان اپنے آخری دنوں میں ہے۔ وہی آخری دن جب گھروں میں سحری اور افطار کی رونقیں مزید بڑھ جاتی ہیں، بازار روشنیوں سے جگمگانے لگتے ہیں، اور دل ایک عجیب سی خوشی اور اداسی کے امتزاج میں ڈوبنے لگتا ہے—خوشی اس بات کی کہ عید قریب ہے، اور اداسی اس بات کی کہ رمضان، اپنے تمام تر سکون، برکتوں اور روحانی خوشبو کے ساتھ، رخصت ہونے کو ہے۔
مگر یہاں، چین میں، کوئی ایسی فضا نہیں۔ نہ گلیوں میں کھلتے رنگ برنگے کپڑوں کی دکانیں، نہ چاند رات کی حوصلہ افزا گہما گہمی، نہ مسجدوں کے باہر زکوٰۃ کے منتظر چہروں کی قطاریں۔ یہاں زندگی آج بھی ویسی ہی ہے جیسے رمضان کے پہلے دن تھی، اور شاید عید کے دن بھی یہی رہے گی۔
یہاں، سب کچھ ایک ہی رفتار سے چل رہا ہے—کوئی خاص تیاری نہیں، کوئی خوشی کی واضح آہٹ نہیں۔ شاید چاند رات کو آسمان کی طرف دیکھ کر میں خود ہی اپنے دل کو تسلی دوں گی کہ ہاں، چاند نکلا ہوگا، کہیں نہ کہیں کسی بام پر کسی نے تکبیر پڑھی ہوگی، کسی بچے نے خوشی سے اپنے نئے جوتے تکیے کے پاس رکھ کر سونا ہوگا۔
یہاں نہ وہ ہلچل ہے، نہ وہ جوش جسے دیکھ کر دل خودبخود عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ بس وہی روزمرہ کے معمولات، وہی سڑکیں، وہی دفتری اوقات، اور وہی لوگ جو کل جیسے تھے، آج بھی ویسے ہی ہیں۔
تو یہاں عید کیسی گزرے گی؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بظاہر تو کوئی آثار نہیں، لیکن شاید خوشی محض بازاروں، چہل پہل اور ہلچل میں نہیں ہوتی۔ شاید خوشی ان یادوں میں بھی بسی ہوتی ہے جو ہم اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اور شاید، جب میں عید کی نماز کے بعد اپنی کھڑکی سے باہر دیکھوں گی، تو مجھے احساس ہوگا کہ اصل خوشی ہمیشہ ہمارے دل کے اندر ہی ہوتی ہے، بس ہمیں
اسے محسوس کرنا آنا چاہیے۔
چین میں رمضان خاموش،پاکستان کی رونقیں یادآتی ہیں…ارم زہرا چین
