سفر ہمیشہ اپنے اندر کوئی نہ کوئی راز رکھتا ہے۔ کبھی یہ ہمیں ماضی کی طرف لے جاتا ہے، کبھی مستقبل کی جھلک دکھاتا ہے، اور کبھی حال کو نئے زاویے سے سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ فروری کی ایک یخ بستہ صبح تھی، جب میں وینزو ساوتھ ریلوے اسٹیشن پر کھڑی تھی، اور میری نظریں پلیٹ فارم پر دوڑتی ہوئی ان تیز رفتار ٹرینوں کو دیکھ رہی تھیں، جو لمحوں میں سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کر لیتی ہیں۔ میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی کافی کا گھونٹ لیا اور سوچا، کیا ترقی صرف عمارتوں اور فیکٹریوں سے ہوتی ہے، یا اس کا تعلق وقت کو مات دینے سے بھی ہے؟ چین نے شاید وقت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا
میری ٹرین آ چکی تھی—شنگھائی جانے والی *Gaotie*، جسے دنیا بلٹ ٹرین کہتی ہے۔ میں اپنی سیٹ پر بیٹھی تو سامنے اسکرین پر رفتار کا میٹر چلنے لگا—240 کلومیٹر فی گھنٹہ، 260، اور پھر 300! کھڑکی سے باہر کے مناظر دھندلے ہونے لگے، جیسے میں وقت کے دھارے میں بہتی جا رہی ہوں۔
میرے برابر ایک چینی لڑکی بیٹھی تھی، جو اپنے فون پر QR کوڈ اسکین کر کے کھانے کا آرڈر دے رہی تھی۔ چند لمحوں بعد ایک روبوٹک سرور آیا اور اس نے نہایت خاموشی سے اس کے سامنے کھانے کا ڈبہ رکھ دیا۔ میں نے مسکرا کر لڑکی کی طرف دیکھا، اور وہ بھی ہنس دی , یہاں سب کچھ بہت تیز ہے، شاید زندگی بھی!”میں نے دل میں سوچا
دو گھنٹے بعد جب میں شنگھائی کے ہونگ چیاؤ اسٹیشن پر اتری، تو سب سے پہلی چیز جو میں نے محسوس کی، وہ تھی سیکیورٹی۔ پورا شہر ایک غیر مرئی جال میں لپٹا ہوا تھا—CCTV کیمرے، چہرہ شناخت کرنے والے سینسرز، اور ہر جگہ موجود پولیس اہلکار
یہاں ہر شخص کا ڈیٹا محفوظ تھا، ہر گاڑی کا نمبر خودکار سسٹم سے جڑا ہوا تھا، اور اگر کسی نے ٹریفک قوانین توڑے، تو اگلے لمحے اس کا چالان اس کے فون پر آ جاتا تھا۔ یہ میں نے بارہا مختلف سڑکوں پر دیکھا کہ ایک بڑی اسکرین پر کچھ لوگوں کی تصویریں آ رہی ہوتیں ، اور نیچے ان کے جرمانے لکھے ہوتے —یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بغیر اجازت سڑک عبور کی تھی!
میں نے میٹرو پکڑی اور شنگھائی کی لوجیازوئی کی طرف روانہ ہو گئی۔ چین کا میٹرو سسٹم شاید دنیا کا سب سے جدید نظام ہے۔ جیسے ہی میں اندر داخل ہوئی، چہرہ شناخت کرنے والا سسٹم ایک سیکنڈ میں مجھے اسکین کر چکا تھا اور دروازے میرے لیے کھل گئے۔
میٹرو کا فرش اتنا صاف تھا کہ اس پر عکس نظر آتا تھا۔ دیواروں پر ” ہولوگرام اشتہارات ” چل رہے تھے، اور میرے برابر بیٹھے لوگ اپنے فون سے آرٹیکل نہیں، بلکہ ورچوئل رئیلٹی میں خبریں دیکھ رہے تھے۔ یہ سب کسی فلم کا منظر لگتا تھا، مگر یہ حقیقت تھی۔
میں نے یہاں ہوٹل میں قیام کیا سفر طویل تھا اور پہنچتے پہنچتے رات ہوگئ تھی
یہ رات بھی باقی راتوں کی طرح تھی، مگر اس میں کچھ خاص تھا۔ شاید چاند کی چمک زیادہ تھی، یا شاید میرے دل میں کوئی ایسی روشنی جاگ اٹھی تھی جس نے مجھے بے چین کر رکھا تھا۔ میں نے بیسویں منزل کی کھڑکی سے باہر جھانکا، نیچے شہر روشنیوں میں نہایا ہوا تھا—سڑکوں پر چلتی کاروں کے ہیڈلائٹس کسی خواب کی کرنیں لگ رہی تھیں، اور دریائے ہوانگپو کے کنارے کھڑی عمارتیں رات کے اندھیرے میں بھی جگمگا رہی تھیں۔
یہ شنگھائی تھا۔ خوابوں کا شہر، روشنیوں کا جادوگر، اور جدیدیت کا ایسا نمونہ جو ہر دیکھنے والے کو حیران کر دیتا ہے۔ میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ شہر بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں—کچھ ماضی میں کھوئے رہتے ہیں، کچھ حال میں جیتے ہیں، اور کچھ مستقبل کی روشنی میں نہائے ہوتے ہیں۔ شنگھائی یقیناً ان شہروں میں سے تھا جو ماضی، حال اور مستقبل کو ایک ساتھ تھامے کھڑا تھا۔
میں نے جیکٹ پہنی اور نانجنگ روڈ کی جانب نکل پڑی۔ یہ سڑک شنگھائی کا دل تھی، جہاں ہر لمحہ ہزاروں لوگ چلتے پھرتے نظر آتے۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز کی کھڑکیوں میں سجے برانڈز کی چمک، فٹ پاتھ پر کھڑے آرٹسٹ جو اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے، اور ہر چہرے پر ایک انوکھی چمک، جیسے سب نے اپنی زندگی میں کچھ بڑا حاصل کر لیا ہو۔
ایک طرف ایک بوڑھا موسیقار گٹار بجا رہا تھا، اور اس کے سامنے ایک چھوٹا سا باکس رکھا تھا جس پر QR کوڈ چسپاں تھا۔ میں ہنسی، کہ یہاں تو بھکاری بھی ڈیجیٹل ہو گئے ہیں! چین کی یہی تو خاص بات تھی—یہاں سب کچھ بدل چکا تھا، سب کچھ آگے بڑھ چکا تھا۔
نانجنگ روڈ سے چلتے چلتے میں دی بُنڈ پہنچ گئی، جہاں ہوانگپو دریا خاموشی سے اپنی روانی میں مگن تھا۔ دریا کے پار، وہی عمارتیں جنہیں میں ہمیشہ تصویروں میں دیکھا کرتی تھی—شنگھائی ٹاور، جین ماؤ ٹاور، اور اورینٹل پرل ٹاور، جو بادلوں سے باتیں کر رہے تھے۔ ایک لمحے کو لگا کہ میں کسی سائنس فکشن فلم کے منظر میں ہوں، جہاں زمین پر موجود سب کچھ مستقبل کے سانچے میں ڈھل چکا ہے۔
دی بُنڈ پر چہل قدمی کے بعد بھوک نے شدت اختیار کر لی، تو میں نے ایک حلال ریستوران کا رخ کیا، جس کی کھڑکیوں سے پورے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی گرم، خوشبو دار کھانوں کی لپٹ نے میرا استقبال کیا۔ میز پر بیٹھتے ہی سامنے پُودونگ (Pudong) کے چمکتے ٹاورز نظر آ رہے تھے، جیسے وہ بھی یہاں کھانے میں شریک ہوں۔
“یہاں کی اسپیشل ڈِش کیا ہے؟” میں نے ویٹر سے پوچھا، جو نہایت مؤدب انداز میں مسکرا رہا تھا۔
“شنگھائی ڈَمپلنگ اور پیپریکا فش بہت مشہور ہیں،” اس نے جواب دیا۔
میں نے آرڈر دے دیا اور کھڑکی سے باہر روشنیوں کا نظارہ کرنے لگی۔ دریا کے کنارے چلتی کشتیاں، روشنیوں میں جگمگاتے پل، اور نیون سائنز سے سجے ٹاورز—یہ شہر رات میں جیسے ایک الگ روپ دھار لیتا تھا۔
کھانے کی مہک نے خیالات کا تسلسل توڑا۔ سامنے شنگھائی کے مشہور شیاو لونگ باؤ (Xiaolongbao) ڈمپلنگ رکھے تھے—یہ پتلی سی تہہ میں لپٹی ہوئی بھرپور ڈِش چینی کھانوں کا ایک شاہکار تھی۔ میں نے پہلی ڈمپلنگ چمچ پر رکھی، ہلکے سے کانٹے سے اسے چھیدا ، اور اندر سے نکلتی گرم یخنی نے جیسے میری سرد شام کو اور بھی خوشگوار بنا دیا۔
اس کے بعد پیپریکا فش آئی، جو سرخ مرچوں اور مصالحوں میں ڈوبی ہوئ تھی—ذائقہ تیز، مگر اتنا مزے دار کہ ہر نوالہ زبان پر ایک نیا تاثر چھوڑ رہا تھا۔ ساتھ میں چاول اور سبزیوں کی ہلکی تلی ہوئی ڈش، اور گرین ٹی کا ایک کپ… میں نے سوچا، “یہ صرف کھانے کا تجربہ نہیں، یہ شنگھائی کے رنگوں اور ذائقوں میں ڈوبنے کا ایک موقع ہے۔”
ریستوران میں چینی، یورپی، اور مشرق وسطیٰ کے لوگ سبھی اپنی اپنی زبان میں گفتگو کر رہے تھے، مگر ایک چیز سب میں مشترک تھی—کھانے کا لطف اور دی بُنڈ کے نظارے کی مسحور کن کشش۔
بلا آخر، میں نے چائے کی آخری چسکی لی، اور کھڑکی سے باہر دیکھا—شنگھائی کے اس دلکش منظر کو جیسے آنکھوں میں قید کر لینا چاہتی تھی۔ یہ شہر صرف ترقی اور تجارت کا نہیں، بلکہ ذائقوں، روایات اور زندگی کے حسین لمحات کو سمیٹنے کی جگہ بھی ہے۔
یہ ڈھلتی شام کا وقت تھا میں دی بُنڈ کے کنارے جا کھڑی ہوئی، جہاں دریا کے دوسری طرف روشنیوں کا میلہ لگا تھا۔ چمکتی ہوئی اسکائی لائن، اور ان عمارتوں کا عکس جو پانی میں لرزتے ہوئے خوابوں کی مانند لگ رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ وہی شہر ہے جو کبھی ماہی گیروں کی بستی تھا، جو کبھی نوآبادیاتی طاقتوں کے زیرِ سایہ رہا، اور آج؟ آج دنیا کا معاشی حب ہے، جہاں اسٹاک مارکیٹ کی دھڑکنیں پوری دنیا کے کاروباری مراکز پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
یہاں کھڑے ہو کر ایک لمحے کو لگا جیسے میں وقت کے دھارے میں بہہ رہی ہوں—ایک طرف تاریخ کے قدیم گودام اور یورپی طرز کے بینک، اور دوسری طرف شنگھائی ٹاور، جو بادلوں سے باتیں کر رہا تھا۔ یہ ماضی اور مستقبل کا وہ سنگم تھا، جہاں وقت رُک کر خود اپنی تفسیر کو دیکھتا ہوگا.
یہ شہر محض روشنیوں کا کھیل نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا مرکز تھا جہاں دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں اپنے فیصلے کر رہی تھیں۔ یہاں کی اسٹاک مارکیٹ کا ایک اتار چڑھاؤ دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے رجحانات بدل سکتا تھا، یہاں کی فری ٹریڈ زون پالیسی نے دنیا کے بڑے تاجروں کو اپنی طرف کھینچ رکھا تھا۔
یہاں میرے قیام کا تیسرا دن تھا . جب میں نے لوجیازوئی کے مالیاتی مرکز کا رخ کیا، جہاں فلک بوس عمارتوں کے درمیان سجیلی گاڑیاں چل رہی تھیں اور ہر طرف کاروباری افراد تیزی سے آ جا رہے تھے۔ یہاں ہر کوئی وقت سے ایک قدم آگے چلنے کی کوشش میں تھا، کیونکہ اگر آپ ایک لمحے کے لیے بھی رکے، تو دنیا آپ کو پیچھے چھوڑ دے گی
جدیدیت کی اس چکاچوند کے بعد میں نے رخ کیا یو یوان گارڈن کا، جو شنگھائی کے دل میں صدیوں پرانی چین کی ثقافت اور خوبصورتی کا امین ہے۔ جیسے ہی میں باغ کے اندر داخل ہوئی، دنیا ایک دم سست روی میں آ گئی۔ پرانے طرز کے محرابی دروازے، ننھے تالابوں میں تیرتی سنہری مچھلیاں، پیچیدہ انداز میں تراشے گئے درخت اور پتھریلی روشیں—سب کچھ جیسے وقت کی قید سے آزاد تھا۔ میں نے وہاں کھڑے ہو کر آنکھیں بند کیں تو دور کہیں سے گزرے وقت کی سرگوشیاں سنائی دیں۔ شاید یہی وہ سکون ہے جو ترقی یافتہ دنیا کی تیز رفتاری میں کہیں کھو جاتا ہے۔
چین، جو آج دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے، اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اور اگر کوئی اس تاریخ کو قریب سے دیکھنا چاہے، تو شنگھائی میوزیم سے بہتر جگہ کوئی نہیں۔ یہاں چینی خطاطی، قدیم سکے، روایتی لباس، اور شاہی عہد کے نوادرات ہر دور کی کہانی سنا رہے تھے۔ ایک لمحے کو میں بھول گئی کہ میں ایک جدید ترین شہر میں کھڑی ہوں، کیونکہ یہ جگہ مجھے کسی قدیم چینی سلطنت میں لے جا چکی تھی، جہاں بادشاہی تخت، قدیم ہتھیار، اور خوبصورت مٹی کے برتن ایک شاندار تہذیب کی یاد دلاتے ہیں
شنگھائی کی گلیوں میں گھومتے ہوئے، اچانک میں ایک ایسی جگہ آ گئی جو یکدم یورپ کی کسی بستی جیسی لگی—فرانسیسی کنسیشن۔ درختوں سے ڈھکی پرسکون گلیاں، پتھریلی سڑکیں، اور پرانی یورپی طرز کی عمارتیں… سب کچھ مجھے چین سے کہیں دور کسی اور زمانے میں لے جا رہا تھا۔ یہ وہی علاقہ تھا جہاں کبھی فرانسیسی تاجروں اور باشندوں نے اپنی دنیا بسائی تھی، اور آج بھی اس کا اثر یہاں کی عمارتوں، کیفے اور گلیوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے
۔شنگھائی کی گلیوں میں قدم رکھتے ہی احساس ہوتا ہے کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔ آپ کے ارد گرد بسنے والے لاکھوں لوگ ہی نہیں، بلکہ بے شمار کیمرے بھی ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ چوراہوں، میٹرو اسٹیشنز، بازاروں اور پارکوں میں نصب یہ سمارٹ کیمرے چہروں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور صرف چند سیکنڈ میں کسی بھی شخص کی شناخت ممکن بنا دیتے ہیں۔
شنگھائی، جو کاروبار اور ٹیکنالوجی کا مرکز ہے، وہیں تعلیم اور تحقیق میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ فُدان یونیورسٹی (Fudan University)، شنگھائی جیاوٹونگ یونیورسٹی (Shanghai Jiao Tong University)، اور ٹونگجی یونیورسٹی (Tongji University) جیسے عالمی معیار کے تعلیمی ادارے یہاں موجود ہیں، جہاں نہ صرف چین بلکہ دنیا بھر کے طلبہ جدید تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
میں نے فُدان یونیورسٹی کے وسیع و عریض کیمپس میں قدم رکھا، تو لگا جیسے میں ایک الگ ہی دنیا میں آ گئ ہوں. وسیع و عریض کیمپس، بلند و بالا جدید عمارتیں، سبزہ زاروں میں کھلے جامنی پھول، اور راستوں پر چلتے، گفتگو کرتے، کتابیں ہاتھ میں لیے نوجوان… یہ کسی عام تعلیمی ادارے کا منظر نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا مرکز تھا جہاں مستقبل کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں۔
یہ دورہ میرے لیے خاص تھا، کیونکہ میرے شوہر نے ہی اس وزٹ کا اہتمام کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ میں ہمیشہ سے چین کی تعلیمی ترقی کو قریب سے دیکھنا چاہتی تھی، اور آج جب میں یہاں تھی، تو دل خوشی اور شکر گزاری کے جذبات سے بھرا ہوا تھا۔
میں نے آہستہ آہستہ قدم اندر رکھے تو ایک عجیب سی سنجیدگی اور جستجو کا ماحول محسوس ہوا۔ ہر طرف طلبہ مختلف گروپوں میں بیٹھے کسی نہ کسی تحقیقی موضوع پر گفتگو میں مصروف تھے۔ کچھ لیبارٹریوں کے اندر کمپیوٹر اسکرینوں پر نظریں جمائے ہوئے تھے، تو کچھ سفید کوٹ پہنے، تجربات کی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے۔ شنگھائی جیاوٹونگ یونیورسٹی اور ٹونگجی یونیورسٹی بھی ایسے ہی علمی مراکز ہیں، جہاں تحقیق محض کتابوں میں دفن نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی میں سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔
میں ایک کیفے کے باہر لکڑی کی بینچ پر بیٹھ گئی اور کیمپس میں چلتے پھرتے چہروں کو دیکھنے لگی۔ ایک لڑکی جلدی میں اپنی کتابیں سمیٹ کر بھاگ رہی تھی، شاید اگلی کلاس کے لیے دیر ہو رہی تھی۔ ایک طرف دو نوجوان بحث کر رہے تھے، ان کے ہاتھوں میں روبوٹکس کے پرزے تھے، اور ان کے چہروں پر وہی شدت تھی جو کسی نئی ایجاد کے دہانے پر کھڑے لوگوں میں ہوتی ہے۔
میں نے یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے بات کی، جو مصنوعی ذہانت پر تحقیق کر رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں چمک تھی جب وہ بتا رہے تھے کہ “یہاں علم کو صرف الفاظ میں نہیں، عملی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ یہاں سیکھایا جائے، وہ دنیا کے لیے فائدہ مند ہو۔”
میرے قریب بیٹھے کچھ غیر ملکی طلبہ بھی اپنی کتابوں میں مگن تھے۔ میں نے ان میں سے ایک پاکستانی طالب علم سے پوچھا، “آپ یہاں کی تعلیم کو کیسا محسوس کرتے ہیں؟”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا،
“یہاں ہر روز کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے، اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کا تعلیمی ماحول تخلیقی ہے، جتنا آپ تحقیق میں آگے جائیں گے، اتنے ہی دروازے کھلتے جائیں گے۔
شنگھائی کی یہ شام دھیرے دھیرے رات میں ڈھل رہی تھی، اور یونیورسٹی کے کلاس رومز کی کھڑکیوں سے آتی روشنی مجھے کہہ رہی تھی کہ یہ شہر، یہ درسگاہیں، یہ نوجوان—سب ایک ایسے کل کی تعمیر میں مصروف ہیں جو ماضی کے خوابوں سے کہیں آگے ہوگا۔ میں نے آخری نظر کیمپس پر ڈالی، ایک گہری سانس لی۔ چین نے سائنسی ترقی کو اپنی معیشت کے ساتھ جوڑ دیا ہے، اور یہی اس کی کامیابی کا راز ہے۔
چین میں ہزاروں پاکستانی طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور شنگھائی ان کے لیے ایک بڑا تعلیمی مرکز بن چکا ہے۔ میں نے کچھ پاکستانی طلبہ سے ملاقات کی، جو یہاں انجینئرنگ، میڈیکل، اور مصنوعی ذہانت جیسے جدید شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پاکستانی طلبہ یہاں صرف سیکھنے نہیں آئے، بلکہ وہ نئی چیزیں تخلیق کر رہے ہیں، جو ایک دن ہمارے ملک کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔
چین، خاص طور پر شنگھائی، مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے میدان میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ یہاں ایسی فیکٹریاں موجود ہیں جہاں زیادہ تر کام انسانوں کے بجائے روبوٹس کرتے ہیں۔ اسپتالوں میں ایسے روبوٹ موجود ہیں جو مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، اور ریستوران میں ایسے خودکار ویٹر ہیں جو کھانا سرو کرتے ہیں۔
میں نے ایک روبوٹکس لیب کا دورہ کیا، جہاں طالب علم ایسے روبوٹس پر تحقیق کر رہے تھے جو نہ صرف صنعتی کاموں میں مدد دے سکیں بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کر سکیں۔ مجھے یاد آیا، جب میں نے ایک کیفے میں اپنا آرڈر دیا تھا، تو میرا کافی کا کپ ایک روبوٹ نے لا کر دیا تھا—یہ سب ایک خواب لگتا تھا، مگر شنگھائی میں یہ حقیقت تھی!
میں نے آسمان کی طرف دیکھا، جہاں بلند و بالا عمارتیں کھڑی تھیں، مگر ان عمارتوں سے بھی اونچے خواب ان تعلیمی اداروں میں پل رہے تھے۔ شنگھائی میں علم اور ترقی کا یہ سفر ختم نہیں ہوتا، بلکہ ہر دن ایک نئی جستجو، ایک نئی ایجاد، اور ایک نئے خواب کی طرف لے جاتا ہے۔
ارم زہرا چین
یہ ہے شنگھائی،ہر دن ایک نئی جستجو،ایک نئی ا یجاد’…ارم زہرا
