کراچی : کنزیومر واچ نیوز: سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے مارچ 2024 سے مارچ 2025 تک اپنی حکومت کی کارکردگی پر مبنی 171 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی، جس میں بتایا گیا کہ حکومت نے ڈیجیٹل تبدیلی، انفراسٹرکچر کی ترقی اور زرعی پیش رفت کے ذریعے گزشتہ سال کے دوران نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والی اس تقریب میں صحت، تعلیم، آئی ٹی، آبی وسائل کے انتظام، زراعت اور گورننس میں اصلاحات سمیت دیگر اہم شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کو اجاگر کیا گیا، جن میں ای-سسٹمز کے نفاذ جیسے منصوبے شامل ہیں۔پیپلز انفارمیشن ٹیکنالوجی پروگرام کے تحت 13,428 طلباء کو اسکالرشپس دی گئیں، جن میں سے 1,171 نے تعلیم مکمل کر لی اور 2,528 کو روزگار مل گیا۔کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، خیرپور، اور شہید بینظیر آباد میں 3,000 یونیورسٹی طلباء اور 200 اساتذہ کو آئی ٹی ٹریننگ دی گئی۔سندھ آبپاشی محکمہ نے ہائیڈرو انفارمیٹکس سینٹر قائم کیا، جو پانی کے بہتر انتظام کے لیے ڈیٹا پر مبنی فیصلے کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔251 کلومیٹر واٹر کورسز کو لائن کیا گیا تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جا سکے۔سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ افیکٹیز (SPHF) نے سیلاب متاثرین کے لیے نیا پورٹل متعارف کرایا، جہاں وہ اپنا ہاؤسنگ اسٹیٹس چیک کر سکتے ہیں۔نئی ڈرون میپنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے دیہی علاقوں کا سروے کیا جا رہا ہے تاکہ ترقیاتی منصوبے بہتر بنائے جا سکیں۔آن لائن وہیکل ٹیکس سسٹم متعارف کرایا گیا، جس کے ذریعے گاڑیوں کے ٹیکس کی ادائیگی، بایومیٹرک تصدیق، اور ڈیجیٹل رجسٹریشن ممکن ہو گئی۔پریمیم نمبر پلیٹ اسکیم کے ذریعے 640 ملین روپے اکٹھے کیے گئے، جس سے 2,100 سیلاب متاثرین کے مکانات تعمیر کیے گئے۔219 ٹیوب ویل اور 434 زرعی آلات کسانوں میں تقسیم کیے گئے۔100 سولر ٹیوب ویل اور ایک سولرائزڈ کولڈ اسٹوریج یونٹ نصب کیا گیا۔900 دیہی خواتین کو کچن گارڈننگ کٹس فراہم کی گئیں تاکہ انہیں خوراک کی خود کفالت حاصل ہو سکے۔سندھ کے صحت کے شعبے میں گزشتہ سال نمایاں پیش رفت اور توسیع دیکھی گئی، جس میں جدید طبی سہولتوں، مریضوں کی بڑھتی ہوئی رسائی، اور ٹیکنالوجی کے فروغ جیسے اقدامات شامل ہیں۔این آئی سی وی ڈی کراچی نے 14 لاکھ مریضوں کا علاج کیا، 5,000 سے زائد کارڈیک مداخلتیں اور سرجریاں کیں، اور ہزاروں تشخیصی اور امیجنگ سروسز فراہم کیں۔سندھ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیوویسکولر ڈیزیز (SICVD) نے بلدیہ ٹاؤن میں کارڈیک ایمرجنسی سینٹر قائم کیا اور سکھر میں اسٹروک پروگرام کا آغاز کیا۔گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نے 200 سے زائد جگر اور 100 سے زائد گردے کی پیوند کاری مکمل کی اور روبوٹک کیتھ لیب اور جوائنٹ ریپلیسمنٹ کی سہولیات متعارف کرائیں۔جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (JPMC) نے دوسرا روبوٹک سرجیکل سسٹم فعال کیا، جبکہ لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز (LUMHS) ایک نئے سسٹم کی خریداری کے عمل میں ہے۔سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) نے پاکستان کا پہلا روبوٹک سینٹر اور PET CT یونٹ قائم کیا، جس سے کینسر کی تشخیص اور علاج میں نمایاں بہتری آئی۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو انسٹیٹیوٹ آف ٹراما نے 70,000 مریضوں کا علاج کیا اور سینے کی سرجری، انٹروینشنل ریڈیالوجی، اور پلاسٹک سرجری کے نئے یونٹس قائم کیے۔سندھ ایمرجنسی ریسکیو سروس 1122 نے ہائی ویز پر سیٹلائٹ اسٹیشنز قائم کیے اور ہنگامی ردعمل کو بہتر بنایا۔چائلڈ لائف فاؤنڈیشن نے 9 بین الاقوامی معیار کے ایمرجنسی مراکز اور 106 ٹیلی میڈیسن سینٹرز قائم کرکے سندھ میں بچوں کی شرح اموات کو 2.9 فیصد تک کم کر دیا، جو کہ قومی سطح پر 5.4 فیصد ہے۔ سندھ پولیس نے S4 اسمارٹ سرویلنس سسٹم متعارف کرایا، جس کے تحت 42 ٹول پلازوں پر چہرے کی شناخت والے کیمرے نصب کیے گئے۔100,000 ڈرائیونگ لائسنس آن لائن جاری کیے گئے۔ای-ٹیگنگ سسٹم کے ذریعے 4,000 مجرموں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔196 نئی سڑکیں تعمیر کی گئیں اور 120 سیلاب زدہ سڑکوں کی مرمت کی گئی، جن کا مجموعی فاصلہ 2,500 کلومیٹر ہے۔53.5 ارب روپے کی لاگت سے مختلف سڑکوں کے منصوبے مکمل کیے گئے۔200,000 سولر ہوم سسٹمز تقسیم کیے گئے اور مزید 300,000 کی منصوبہ بندی جاری ہے۔24 سرکاری عمارتوں کو سولرائز کیا گیا، جن میں ہسپتال، جیلیں، اور تعلیمی ادارے شامل ہیں۔’ہری کارڈ‘ اسکیم کے تحت 168,000 سے زائد کسانوں میں 10.11 ارب روپے تقسیم کیے گئے۔’کلک کاروبار ایپ‘ کے ذریعے کاروباری لائسنس اور پرمٹ حاصل کرنے کا عمل آسان بنایا گیا۔’شہید محترمہ بینظیر بھٹو اسکالرشپ‘ کے تحت ہر سال 10 طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے 100 ملین روپے فراہم کیے جائیں گے۔یہ تمام منصوبے سندھ حکومت کے تکنیکی جدت، انفراسٹرکچر کی ترقی، اور معاشی استحکام کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں، جو شہید ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے وڑن کے مطابق ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم نے ا علان کیا تھا کہ ہم پیپلز انفارمیشن ٹیکنالوجی پروگرام شروع کریں گے،ہم نے اپنے بچوں کو اپنی نیکسٹ جنریشن کو ٹرینڈ کرنا ہے ہم نے انڈر پروپون انیشٹو پیپل انفارمیشن ٹیکنالوجی پروگرام شروع کیا تھا اس پروگرام کے تحت اس سال 13428 سٹوڈنٹس کو ہم تین مختلف یونیورسٹیز میں اسکالرشپ دی،ہم 1171 سٹوڈنٹس گریجوئیٹ کرا چکے ہیں ان گریجوئیٹس میں سے 2528 نے جابز حاصل کر لیے ہیں ،آخری بیج جو 3057 کا 2357 یہ مئی 2025 میں گریجوٹ کرے گا ،اس کامیابی کو مدنظر رکھ کر ہمارا ارادہ ہے کہ اگلے سال بھی اس کو ایک اور اسکوپ بڑھائیں،اس کے ساتھ ساتھ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے 2024 کے اندر 1500 آئی ٹی گریجوٹس کے لیے ایک بوٹ کیمپ کیا تھااور ان 1500 میں سے 870 گریجوٹ سپلائی نہیں سیلف ایمپلائیڈ ہیں ہم ہر ایک کو مانیٹر بھی کرتے ہیں جو اس کے بعد ان کی جابز لینے میں مدد کی،اس کے ساتھ ساتھ ان کو اگر مزید کسی مدد کی ضرورت ہے تو آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ ان کے ساتھ رابطہ میں رہتا ہے ،ایک اور پروگرام ہے یہ اس سے تین ہزار یونیورسٹی سٹوڈنٹس جو تھرڈ یا فورتھ ایر میں تھے،کراچی حیدرآباد سکھر لاڑکانہ خیرپور شہید بے نظیر اباد ڈسٹرکٹ میں 758 یہ ٹرینیز تھے، ہم تین ہزارا سٹوڈنٹس اور 200 ٹیچرز اور ٹیچنگ اسسٹنس کر چکے ہیں محکمہ آبپاشی نے ہائیڈرو انفارمیٹکس سینٹر ایک بنایا ہے،یہ سینٹر ڈیٹا سارا کلیکٹ کرتا ہے اس سے ڈیٹا اویلیبل بھی ہے جو لوگ ڈیٹا حاصل کرنا چاہیں محکمہ آبپاشی مدد ملتی ہے اور یہ بھی ایک آئی ٹی کے اندر ہماری ایڈوانسمنٹ ہے سندھ پیپلز ہاؤزنگ آف فلڈ افیکٹیز اس کے بارے میں اگے میں آپ کو پھر بتاؤں گاآئی ٹی میں ہم نے تین پورٹلز بنائے ہیں یہ بینیفیشری پورٹل ہے کوئی بھی بینیفیشری اپنا شناختی کارڈ ڈال کے اپنا سٹیٹس چیک کر سکتا ہے ہمارا ایس پی ایچ آف ہیٹ میپ ہے یہ بھی ٹیکنالوجی میں اہم قدم ہے،جو بھی جس کو ایکسس ہے وہ کسی بھی ڈسٹرکٹ کے کسی بھی تعلقے سے ہو وہ گھر کا سٹیٹس دیکھ سکتا ہے یہ پورے ہمارے دو ملین سے اوپر ڈیٹا بیس ہیہم نے ایک پائلٹ پروگرام شروع کیا ہے کہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میپنگ ہم کرتے ہیں ڈرون کے ساتھ گاؤں کے اوپر جاتے ہیں اس کی ساری ڈیجیٹل میپنگ کر لیتے ہیں اور پھر ہمیں اس میں جو گیپس ہیں پتہ چلتے ہیں یہ ابھی پائلٹ ہے کچھ ولیجز ہم کر چکے ہیں لیکن ارادہ ہے کہ یہ پورے سندھ میں ہم اس کو ایپلیکیٹ کریں گے ،ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ نے اٹومیشن کی طرف گئے ہیں ،گزشہ ایک سال میں یہ سارا کچھ مرتب کیا، ہے، وہ پرانی چیزیں نہیں بتا رہا ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے اس سال یہ ڈیجیٹائز کیلئے ایپ بنائیے ہیں،اپ موٹر وہیکل ٹیکس پروفیشنل ٹیکس اپنی ایکسائز لے لی ہے انفراسٹرکچر سائز یہ سارا ان لائن کر سکتے ہیں بائی میٹرک ویریفکیشن اور موٹر وہیکل رجسٹریشن اور ٹرانسفر کر سکتے ہیں پہلا ان لائن اپشن پریمیم نمبر پلیٹ کا ہم نے اس سال کیاہم باقی بھی جو ہماری سکیمز ہیں چاہے وہ میکنائز فارمنگ کے لیے امپلیمنٹس دینا ہو چاہے ا جو ہمارے واٹر کورسز لائن کرنے کا پروگرام ہے جو ہم پاورز کو اسسٹ کرتے ہیں ان سب نے ہم اس ہاری کارڈ کو استعمال کریں گے آن لائن ایپلیکیشن وہ سیکیورٹی فیچر نمبر پلیٹس جو نئے نمبر پلیٹس کے لیے وہ بھی اپ ان لائن ہی سارا کر سکتے ہیں سندھ فوڈ اتھارٹی نے بزنس رجسٹریشن جو ڈفرنٹ فوڈ اؤٹلٹس ہیں ان کے لیے ایک ایپ بنائی ہوئی ہیوہ اپنی بزنس رجسٹریشن اپنی جو لائسنس فیس ہے وہ سب کچھ ان لائن کر سکتے ہیں ہمارے انویسٹمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایک ایپ بنائی ہوئی ہے کاروبار ایپ کے نام سے کہ جس نے بھی کاروبار شروع کرنا ہے وہ اس ایپ کے ذریعے رجسٹر کر سکتا ہے، اپنی پرمٹس لے سکتا ہے آپ کو جو مسئلے ہیں جس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ہیں وہ بتا سکتا ہے، یہ چیزیں انفارچونیٹلی ہم اتنی زیادہ ڈسمنٹ نہیں کر سکے لیکن ابھی ہم شروع کریں گے، تاکہ پتہ اور اس کے اندر ہم جو پورٹل ہے انفارچونیٹلی بہت زیادہ ریگولیٹری اپروولز ہوتی ہیں بزنس کو ہم ایز ڈوئنگ بزنس میں کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ریگولیٹومنٹس ہم انٹروڈیوس کریں گے اگے جاتے ہوئے کہ وہ پرمٹس ان لائن لوگ لے سکیں ای پروفیمنٹ یہ ہم نے اس کو تقریبا اٹھ نو مہینے ہو گئے ہم نے شروع کیا ہے،ہم ہر ڈیپارٹمنٹ کے اینیل پروکیومنٹ پلان سے لے کر اس کی ایوارڈ اف ٹینڈر تک سارا ٓٹومیٹک کریں گے سارا ا فیسلس ہو تاکہ اپ کے کم از کم اس میں کوئی ہیومن انٹروینشن یا کوئی ایسی بات ہو وہ ہمارا ای پیڈز کے نام سے ای پیک ایکویشن ڈسپوزل سسٹم ہم نے اپریل 24 میں اس کو سافٹ سٹارٹ کیا تھا اور اس وقت تک ہم 558 سپلائرز کو رجسٹر کر چکے ہیں 408 ٹینڈرز پبلش میں 308 تک پیمنٹس کمپلیٹ ہوئی ہیں اور 883 پروگریس ہیں ہم نے ماسٹر ٹرینرز آفیسرز اور بڈرز کو ٹرین کرنے کا ایک پروگرام بنا ہوا ہے اور ہمارا ارادہ ہے کہ ہم گریجولی پیپر ٹرانزیکشن سے ختم کر کے یہ سارا کا سارا ایک پورٹل پر لے آئیں گے یہ ایک اور ایشو کافی عرصے سے تھا کہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے اندر وہ گندم کا جو آپ کو پتہ ہے کہ گندم ناقص ہے چوری ہو گئی مٹی بھری ہوئی ہے .