دنیا کی کسی اجنبی سرزمین میں قدم رکھنا ہمیشہ ایک عجیب خوشی دیتا ہے، جیسے ہر سانس میں نئی خوشبو، ہر قدم میں ایک چھپی ہوئی کہانی ہو۔ میں ایک قلمکار ہوں، اور لفظوں کی دنیا میں زندگی کے رنگ بکھرتے دیکھتی رہی ہوں، مگر آج میرا سفر ایک نئی راہ کی جانب ہے ۔ ایک ایسی دنیا کی طرف جہاں انسانی جستجو اور سائنس کی تخلیقیت ایک دوسرے سے مل کر حیرت انگیز مناظر بناتے ہیں۔
ہمیں چین میں ایک خاص چار روزہ پروگرام میں مدعو کیا گیا، جس کا مقصد سائنس کی دنیا میں نئی ایجادات کو قریب سے دیکھنا اور سمجھنا تھا۔ یہ چار دن، جیسے ایک مختصر مگر روشن سفر، ہمیں جدید تحقیق کے مراکز، لیبارٹریوں اور ان کی رونقوں سے متعارف کرانے کے لیے ترتیب دیے گئے تھے۔ ہر دن ایک نیا باب کھولتا، ہر کمرہ ایک نئی دریافت کی جھلک دکھاتا، اور ہر محقق اپنی جستجو کی داستان سناتا۔
ان ہی دنوں میں ایک ایسا لمحہ آیا جو ہمیشہ کے لیے یادگار بن گیا۔ میں ایک میڈیکل اسپتال کے احاطے سے گزر رہی تھی کہ ایک الگ سی عمارت پر میری نظر پڑی۔ دروازے پر بڑے حروف میں لکھا تھا HPV Vaccine Center۔ لمحہ بھر کو رکی اور حیرت ہوئی کہ آخر ایک ویکسین کے لیے پورا بلاک کیوں مخصوص ہے۔ تجسس نے قدم اندر بڑھا دیے
اندر داخل ہوتے ہی معلوم ہوا کہ یہ وہی ویکسین ہے جو خواتین کو رحمِ مادر کے کینسر سے بچاتی ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ یہ ویکسین دنیا میں سب سے پہلے 2006 میں سامنے آئی تھی، لیکن چین میں اسے 2016 میں متعارف کرایا گیا۔ تب سے لاکھوں لڑکیوں کو یہ ویکسین دی جا رہی ہے اور ان کی زندگیاں ایک بڑے خطرے سے محفوظ ہو رہی ہیں۔ اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ صحت اور تحفظ کے لیے ایک ملک کس قدر منظم اور سنجیدہ ہو سکتا ہے۔
یہی سوچ پھر پاکستان کے حوالے سے دل میں جاگ اٹھی۔ خوشی کی خبر یہ ہے کہ اب پاکستان نے بھی قدم بڑھایا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ ویکسین اسکولوں میں بچیوں کو مفت فراہم کی جا رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں کئی والدین ابھی تک شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ یہی ویکسین آنے والے برسوں میں ہزاروں خواتین کو کینسر جیسے مہلک مرض سے بچا سکتی ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ ہر لڑکی اور ہر والدین یہ بات سمجھیں: HPV ویکسین کوئی خوف کی چیز نہیں، یہ ایک ڈھال ہے، ایک تحفظ ہے۔ چین کی طرح پاکستان میں بھی اگر ہم اسے اعتماد کے ساتھ اپنائیں تو آنے والی نسلیں زیادہ محفوظ اور صحت مند ہوں گی۔
یہی احساس میرے دل میں لے کر میں اگلے دن ایک نئے تجربے کی طرف روانہ ہوئی۔ بیجنگ کی وہ خنک صبح آج بھی یاد ہے جب ہم سیمینار ہال کی طرف روانہ ہوئے۔ ہوٹل سے نکلتے ہی سڑکوں پر ایک الگ ہی ترتیب اور سکون محسوس ہوا۔ جدید عمارتیں، تیز رفتار زندگی اور لوگوں کے چہروں پر اعتماد یوں لگتا تھا جیسے یہ شہر صرف رہنے کے لیے نہیں بلکہ مستقبل تراشنے کے لیے بنا ہو۔ بس میں بیٹھے ہم سب کے دلوں میں تجسس تھا کہ آج ہمیں کس دنیا سے روشناس کرایا جائے گا۔
اسی کیفیت میں ہم سیمینار ہال پہنچے۔ باہر مختلف ملکوں کے پرچم لہرا رہے تھے اور اندر داخل ہوتے ہی سائنسی پوسٹروں، تصویروں اور ماڈلز نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ ماحول ایسا تھا جیسے علم اور تحقیق کا ایک میلہ سجا ہو
اس سمینار میں دکھایا گیا کہ چین میں سائنس کی دنیا کس تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ٹوٹتی ہڈیوں کے لیے بایوگلُو، دماغی بیماریوں کے علاج کے لیے ڈیجیٹل تھراپی، جین ایڈیٹنگ کی جدید ٹیکنالوجی اور مستقبل کی ویکسینیں، جو آنے والے کچھ سالوں میں عام لوگوں کے لیے دستیاب ہوں گی۔ یہ چار دن مجھے اور ہمارے گروپ کو محض مشاہدہ کرنے کا موقع نہیں دیتے، بلکہ ہمیں اس سفر کے ذریعے یہ سمجھنے کا موقع بھی ملا کہ انسان اپنی محدودیتوں کے باوجود زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے ۔
گاڑی جب لیبارٹری کے احاطے میں داخل ہوئی، تو سفید دیواریں اور روشن کمروں نے فوراً میری توجہ کھینچ لی۔ ہر کمرے میں مشینیں خاموشی سے حرکت کر رہی تھیں، جیسے کسی معصوم مصور کے برش کی لکیریں۔ سائنسدان، سفید کوٹ میں ملبوس، کام میں اتنے محو تھے کہ وقت کی موجودگی بھی پس منظر بن گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سفر صرف جگہ بدلنے کا نہیں، بلکہ سوچ اور دریافت کی سرحدوں کو پار کرنے کا ہے۔
میں نے ہر چھوٹے تجربے، ہر ٹیسٹ اور ہر مشاہدے کو اپنی نگاہ سے دیکھا۔ ٹوٹتی ہڈیوں کو جوڑنے والے ہلکے محلول، خون کی نالیوں کے شفاف نمونے، دماغ کے خلیوں کی روشنی ہر منظر میں انسان کی جدوجہد اور امید کی جھلک تھی۔ میں نے سوچا، یہ سب کچھ دیکھ کر قاری کو کیسے بتاؤں کہ سائنس کی یہ دنیا بھی ایک افسانے کی طرح دل کو چھو سکتی ہے، مگر حقیقت کی بنیاد پر۔
یہاں ہمیں ایسی ایجادات دکھائی گئیں جو بظاہر مستقبل کی کہانی لگتی ہیں مگر حقیقت میں تحقیق کے مختلف مراحل سے گزر رہی ہیں۔ مثلاً ہڈیوں کو جوڑنے والا بایو گلو، جس کے پری کلینیکل ٹرائلز مکمل ہو چکے ہیں اور اُمید ہے کہ 2028 کے بعد عام میڈیکل پریکٹس کا حصہ بنے گا۔ دماغی بیماریوں کے علاج کے لیے ڈیجیٹل تھراپی بھی متعارف کروائی گئی، جو 2026 سے 2028 کے دوران مریضوں کو سہولت دینے لگے گی۔ جین ایڈیٹنگ کی جدید ٹیکنالوجی پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ یہ وہی ایجاد ہے جس نے 2012 میں دنیا کو حیران کیا اور جس کا پہلا عملی علاج 2023 میں منظور ہوا، جبکہ دیگر بیماریوں کے لیے اس کا وسیع استعمال 2030 کے بعد ممکن ہوگا۔ اسی طرح مستقبل کی ویکسینز پر بھی تحقیق جاری ہے؛ بتایا گیا کہ 2028 سے 2035 کے درمیان کینسر اور نئی وباؤں کے لیے تیار کی جانے والی یہ ویکسینز عام لوگوں کی دسترس میں ہوں گی۔
اس سب کو دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سائنس کسی افسانوی دنیا کی نہیں بلکہ ہمارے آنے والے کل کی حقیقت کی تصویر پیش کر رہی ہو۔
ایک دوسری لیبارٹری میں داخل ہوتے ہی پروفیسر کی نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ایک ایسی لیب دکھائی جہاں جین ایڈیٹنگ پر کام جاری تھا۔ ننھے ننھے کیوبز میں DNA کے دھاگوں کو کھولا جا رہا تھا، جیسے کوئی ماہر درزی پرانے کپڑے سے نیا لباس تراش رہا ہو۔ میں نے سوچا، صدیوں پہلے کہانیاں لکھنے والے انسان کو یہ گمان بھی نہ ہوگا کہ ایک دن اس کی اولاد اپنے ہی وجود کے دھاگے کھول کر دوبارہ بُننے لگے گی۔ یہاں سائنسدان CRISPR ٹیکنالوجی استعمال کر کے تھیلیسیمیا اور سِکل سیل جیسی موروثی بیماریوں کو ختم کرنے کی تیاری میں ہیں۔ پروفیسر نے بتایا کہ دنیا میں پہلا CRISPR علاج 2023 میں امریکہ اور برطانیہ میں منظور ہو چکا ہے، اور اُمید ہے کہ 2030 کے بعد یہ ٹیکنالوجی زیادہ وسیع پیمانے پر مریضوں کے لیے دستیاب ہوگی۔
اسی عمارت کے دوسرے حصے میں ایک اور حیران کن منظر میرا انتظار کر رہا تھا۔ بڑے بڑے ٹینکوں میں پانی کی طرح شفاف محلول کے اندر سٹیم سیلز تیر رہے تھے۔ پروفیسر نے وضاحت کی کہ یہی خلیے مستقبل میں دل کی ناکامی کے علاج میں استعمال ہوں گے، جگر کی بیماریاں ختم کریں گے اور یہاں تک کہ ٹشو ری جنریشن کو بھی ممکن بنائیں گے۔ سٹیم سیل ریسرچ کے کلینیکل ٹرائلز 2015 کے بعد تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور 2028–2035 کے دوران کئی علاج عام مریضوں کے لیے دستیاب ہونے کی توقع ہے۔ میں نے سوچا، یہ خلیے کتنے معصوم ہیں، مگر ان کی معصومیت میں پوری زندگی کی طاقت چھپی ہے۔
پھر ایک دن میں نے شہر کے دوسرے کونے میں وہ ہال دیکھا جہاں میڈیکل روبوٹکس کے تجربے ہو رہے تھے۔ لمبے بازوؤں والے روبوٹ، ہلکی ہلکی روشنی میں، کسی مصور کی طرح نازک حرکتیں کر رہے تھے۔ ایک روبوٹ مصنوعی دل پر آپریشن کی مشق کر رہا تھا۔ میں نے حیرت سے پوچھا، “کیا یہ انسان کا دل چھو سکتا ہے؟” پروفیسر نے مسکرا کر جواب دیا، “ہاں، اور کبھی کبھی یہ انسان کے ہاتھ سے زیادہ نرمی سے چھوتا ہے۔” انہوں نے بتایا کہ سرجیکل روبوٹس کی پہلی نسل 2000 کے آس پاس سامنے آئی تھی، لیکن اب نئی جنریشن کے روبوٹس اتنی باریک بینی کے ساتھ کام کر رہے ہیں کہ 2025 سے 2030 کے درمیان یہ دل، دماغ اور کینسر کے پیچیدہ آپریشن عام اسپتالوں میں ممکن بنا دیں گے۔ آج یہ منظر صرف ایک لیب کی مشق لگ رہا تھا، لیکن آنے والے برسوں میں یہی روبوٹک بازو انسانوں کی زندگی بچانے والے معاون بن جائیں گے۔
یہ سب کچھ مستقبل کی جھلک ہے۔ مگر یہ مستقبل صرف چین یا امریکہ کا نہیں، یہ ہم سب کا ہے۔ جیسے دریا اپنی منزل کے لیے پہاڑوں اور وادیوں سے گزرتا ہے، ایسے ہی یہ ریسرچ ایک دن ہماری زمینوں تک بھی بہہ آئے گی۔
پچھلے دنوں میں ایک ایسی لیبارٹری پہنچی جہاں انسان کی ہڈیوں پر تحقیق ہو رہی تھی۔ کمرہ کسی ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کی طرح چمک رہا تھا۔ شیشے کے پیالوں میں چمکدار سفید ڈھانچے رکھے گئے تھے، مگر یہ ہڈیاں کسی انسان سے نہیں لی گئیں بلکہ 3D پرنٹنگ سے تراشی گئی تھیں۔ میں نے ان پر ہاتھ رکھا تو یوں لگا جیسے پتھر اور موم کے بیچ کی کوئی شے ہو۔ محقق نے بتایا، “یہ وہ ہڈیاں ہیں جو ایک دن مریض کے جسم میں لگا کر اس کے ٹوٹے وجود کو مکمل کر دیں گی۔” دنیا میں پہلا 3D پرنٹڈ بون امپلانٹ کلینیکل ٹرائل کے طور پر 2018 میں استعمال ہوا، اور اگلے چند سالوں میں اسے عام مریضوں کے لیے دستیاب کرنے کی توقع ہے۔ میں نے سوچا، ہمارے وطن میں کتنے لوگ حادثوں کے بعد عمر بھر پلاسٹر اور بیساکھیوں کے سہارے جی لیتے ہیں، اور اگر یہ ایجاد وہاں پہنچے، تو شاید کوئی بچہ دوبارہ کھیل کے میدان میں بھاگ سکے۔
کچھ دن بعد مجھے دماغی سائنس کی ایک ورکشاپ میں جانے کا موقع ملا۔ ہال کے بیچوں بیچ ایک مشین رکھی تھی جو انسانی دماغ کے نقشے بنا رہی تھی۔ پروفیسر نے بتایا کہ اب AI کے ذریعے الزائمر اور پارکنسن کی بیماری کو اس کے بڑھنے سے پہلے پہچانا جا سکتا ہے۔ میں نے اس اسکرین پر جھلملاتی لہروں کو دیکھا اور سوچا، یہ لہریں کسی ندی کی طرح ہیں جو ذہن کی وادیوں میں بہتی ہیں۔ اور یہ مشین ان ندیوں کی خاموش زبان کو پڑھنا سیکھ گئی ہے۔
پھر مجھے ایک مریض کی کہانی سنائی گئی، جس پر Deep Brain Stimulation (DBS) کا تجربہ ہوا تھا۔ دماغ کے اندر باریک تاریں ڈال کر ہلکی برقی رو دی گئی، جس نے اس کی سالہا سال کی ڈپریشن کو کم کر دیا۔ میں نے حیرت سے پوچھا، “کیا واقعی خوشی کو بجلی کے جھٹکے سے واپس لایا جا سکتا ہے؟” پروفیسر نے مسکرا کر کہا، “یہ جھٹکا نہیں، یہ روشنی ہے۔” دنیا میں DBS کا پہلا کلینیکل ٹرائل 1997 میں ہوا، اور اب یہ علاج 2025 تک کئی نفسیاتی اور موٹر بیماریوں کے مریضوں کے لیے دستیاب ہونے کی توقع ہے۔
رات کو جب میں اپنے کمرے میں واپس آئی تو کھڑکی سے بیجنگ کی روشنیاں جھلمل کر رہی تھیں۔ میں نے اپنی ڈائری کھولی اور لکھا ہڈیوں کو جوڑنے سے لے کر دماغ کی ندیوں کو سمجھنے تک، یہ سب سفر صرف سائنس کا نہیں، بلکہ انسان کے درد کو بانٹنے کا ہے۔ اور شاید یہی اصل ایجاد ہے—انسانی رشتے کو مزید قریب لانے کی
اسی طرح ہم نے ایک اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا دورہ کیا جو دل کی بیماریوں پر کام کر رہا تھا۔ وہاں ایک کمرے میں ایک مصنوعی دل شیشے کے خول میں دھڑکتا ہوا رکھا تھا۔ میں نے حیرت سے پوچھا، “یہ دھڑکن کیسی ہے؟” سائنسدان نے مسکرا کر کہا، “یہ انسان کے اندر لگنے کے انتظار میں ہے۔” یہ Artificial Heart Pumps ہیں، جو ان مریضوں کے لیے بنائے گئے ہیں جن کا دل اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا میں پہلا مصنوعی دل 1980 کی دہائی میں استعمال ہوا، لیکن نئی جنریشن کے پمپ 2025–2030 کے دوران زیادہ عام اسپتالوں میں دستیاب ہونے کا امکان رکھتے ہیں۔ میں نے سوچا، ہمارے ملک میں کتنے لوگ دل کے دورے کے بعد زندگی اور موت کے بیچ معلق رہتے ہیں، اور اگر یہ ٹیکنالوجی وہاں پہنچے تو شاید کئی گھر اجڑنے سے بچ جائیں۔
اسی ادارے میں مجھے 3D پرنٹڈ خون کی نالیاں بھی دکھائی گئیں، شفاف اور نازک، جیسے کسی شیشے کے کاریگر نے بڑی محبت سے بنائی ہوں۔ سائنسدان نے بتایا کہ یہ نالیاں ایک دن انسانی جسم میں جا کر خون کے بہاؤ کو دوبارہ رواں کر دیں گی۔ میں نے اپنے دل ہی دل میں سوچا، یہ سب کچھ محض سائنس نہیں، یہ تو زندگی کی نئی شاعری ہے۔
پھر ایک اور سفر نے مجھے متعدی امراض کی ریسرچ تک پہنچا دیا۔ بیجنگ کے ایک بڑے مرکز میں میں نے وہ لیبارٹری دیکھی جہاں دنیا کو ہلا دینے والے وائرسز پر تحقیق ہو رہی تھی۔ سفید کوٹ میں ملبوس محققین، جیسے کسی محاذ پر سپاہی کھڑے ہوں، بتا رہے تھے کہ کوشش ہو رہی ہے کہ ایک Universal Flu Vaccine تیار کی جائے، جو ہر قسم کے فلو وائرس کے خلاف انسان کو ڈھال فراہم کرے۔ میں نے ایک سائنسدان سے پوچھا، “کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کو ہر بار نئی ویکسین نہ لگانی پڑے؟” وہ بولے، “ہم امید کے دھاگے سے یہ کپڑا بُن رہے ہیں۔”
اسی جگہ مجھے mRNA پر مبنی HIV ویکسین کے ابتدائی نتائج کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ لمحے کے لیے میرے ذہن میں پاکستانی ہسپتالوں کی تصویریں اُبھر آئیں، جہاں HIV کے مریض اکثر خاموشی میں تڑپتے رہتے ہیں۔ اگر یہ ویکسین کامیاب ہو جائے تو کتنی زندگیاں محفوظ ہو جائیں گی۔
ایک کونے میں نئی اینٹی بایوٹکس پر تجربات ہو رہے تھے، وہ اینٹی بایوٹکس جو ان بیکٹیریا کے خلاف ہوں گی جو عام دواؤں کو شکست دے چکے ہیں۔ میں نے سوچا، یہ لڑائی بھی عجیب ہے۔ انسان اور جراثیم کی صدیوں پرانی جنگ، جو شاید کبھی ختم نہ ہو، مگر انسان کی ہمت ہر بار ایک نئی حکمت تراش لیتی ہے
چین میں میرا قیام جیسے کسی طویل خواب کی طرح ہے، جو ہر دن ایک نئے منظر کے ساتھ جاگتا ہے۔ کچھ دن پہلے میں ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں گئی، جہاں کینسر پر تحقیق ہو رہی تھی۔ کمرے میں روشنی مدھم تھی، مگر ایک بڑے اسکرین پر انسانی خلیوں کی تصویریں دھڑک رہی تھیں۔ سائنسدان نے اشارہ کیا اور کہا، “یہ خلیے بیمار ہیں، مگر ہم نے ان کے مقابلے کے لیے سپاہی تیار کیے ہیں۔” میں نے حیرت سے پوچھا، “سپاہی؟” وہ مسکرائے، “جی ہاں، یہ ہیں CAR-T سیلز، جو خون کے کینسر کو شکست دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔” دنیا میں CAR-T علاج کا پہلا کلینیکل ٹرائل 2012 میں شروع ہوا، اور 2017 میں امریکہ میں منظوری ملی۔ میں نے ان روشن خلیوں کو دیکھا اور سوچا، یہ منظر تو کسی افسانے سے کم نہیں۔ ہمارے دیس میں کتنے مریض ہیں جو کینسر کی تشخیص کے بعد امید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، اور کاش ایک دن یہ سپاہی ان کے جسم میں جا کر ان کے خوابوں کو واپس لے آئیں۔
اسی لیب میں مجھے Liquid Biopsy کے بارے میں بتایا گیا۔ صرف چند قطرے خون سے پورے جسم کا احوال معلوم ہو جاتا ہے، اور کینسر کہاں ہے، کس مرحلے میں ہے، یہ فوری پتہ چلتا ہے۔ یہ ٹیسٹ 2010 کے بعد دنیا کے کئی ہسپتالوں میں دستیاب ہوا، اور توقع ہے کہ 2025 تک عام مریضوں کے لیے زیادہ قابل رسائی ہوگا۔
پھر ایک اور کمرے میں نینو ذرات کی تحقیق جاری تھی، جو دوا کو سیدھا کینسر کے خلیے تک پہنچاتے ہیں۔ دنیا میں پہلے نینو ذرات پر کلینیکل ٹرائلز 2015 میں شروع ہوئے، اور اگلے پانچ سالوں میں کئی نئی دوا سازیاں تیار ہو رہی ہیں۔ میں نے سوچا، یہ علاج بیماری کے ساتھ ساتھ مریض کی اذیت کو بھی کم کر رہا ہے۔
ڈیجیٹل ہیلتھ کانفرنس میں مجھے بتایا گیا کہ AI دل کی دھڑکن پڑھ کر آنے والے دورے کی پیش گوئی کر لیتا ہے، اور موبائل ایپس مریض کو وقت پر خبردار کر دیتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی 2020 سے محدود استعمال میں آئی ہے، اور 2025–2027 کے درمیان زیادہ وسیع پیمانے پر مریضوں کے لیے دستیاب ہونے کی توقع ہے۔
اسی کانفرنس میں ڈیجیٹل تھراپی کا تجربہ بھی دکھایا گیا۔ ایک نوجوان نے ورچوئل ریئلٹی کا چشمہ پہنا، اور وہ ایک ایسی دنیا میں داخل ہوگیا جہاں اس کا ذہن سکون کی سانس لینے لگا۔ دنیا میں VR-based تھراپی کے پہلے کلینیکل ٹرائلز 2018 میں شروع ہوئے، اور 2025 کے بعد یہ ذہنی دباؤ اور بے چینی کے علاج کے لیے عام مریضوں کے لیے دستیاب ہو جائے گی۔
چین کی گلیاں، اس کی لیبارٹریاں، اور ان میں دن رات کام کرنے
والے محققین میری آنکھوں میں ایسے محفوظ ہیں جیسے کسی چراغ کی لو میں کہانی محفوظ رہتی ہے۔ میں نے ان دنوں میں دیکھا کہ انسان اپنی کمزوریوں کو شکست دینے کے لیے کیسے خواب بُنتا ہے، اور پھر ان خوابوں کو حقیقت کا لباس پہنا دیتا ہے۔
یہاں میں نے جین ایڈیٹنگ کے کمالات دیکھے، جہاں سائنسدان زندگی کے ٹوٹے دھاگوں کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش میں تھے۔ میں نے روبوٹک بازوؤں کو دیکھا جو نرمی سے انسان کے دل کو چھو سکتے ہیں۔ میں نے بایو گلُو کو چھوا جو ٹوٹی ہڈی کو کسی ماں کے لمس کی طرح سنبھال لیتا ہے۔ میں نے دماغ کے اندر بجلی کی روشنی دیکھی جو برسوں کی تاریکی کو کافور کر دیتی ہے۔ میں نے مصنوعی دل کی دھڑکن سنی جو زندگی کی نئی امید سناتی ہے۔ میں نے ویکسینز کے سپاہی دیکھے جو جراثیم کے خلاف صف آرا تھے۔ میں نے کینسر کے خلیوں کو شکست دینے والے علاج کو قریب سے محسوس کیا، اور ڈیجیٹل تھراپی کے خوابوں کو حقیقت بنتے دیکھا۔
سائنس نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ بیماری تقدیر ہو سکتی ہے، مگر شفا انسان کی جستجو ہے۔ اور یہ جستجو کسی ایک ملک یا قوم کی نہیں، یہ پوری انسانیت کی مشترکہ جدوجہد ہے۔ جیسے دریا اپنی روانی کے لیے کسی ایک وادی پر انحصار نہیں کرتے، بلکہ پہاڑوں سے نکل کر میدانوں تک سب کو سیراب کرتے ہیں، ایسے ہی یہ ایجادات بھی ایک دن سب سرزمینوں تک پہنچیں گی۔
چین کی لیبارٹریوں کا سفر ….ارم زہرا
