چین میں پاکستانی طلبہ کے لیے تعلیمی مواقع…ارم زہرا

0

‏‎ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی، جیسے کسی نے صدیوں پرانی کتاب کے اوراق الٹ کر رکھ دیے ہوں۔ شنگھائ کی سڑکوں پر سرخ فانوس جھول رہے تھے، اور پیلی روشنی میں قدیم عمارتوں کے سائے لمبے ہو رہے تھے۔ میں ایک پرسکون کافی شاپ کے کونے میں بیٹھی تھی۔ صبح کی روشنی میں، سیاہ کوٹ پہنے کچھ نوجوان سر جھکائے اپنی کتابوں میں کھوئے ہوئے تھے، جیسے کسی راز کی پرتیں کھول رہے ہوں۔
‏‎یہ وہی جگہ تھی جہاں ہر سال سینکڑوں پاکستانی طلبہ آتے ہیں، اپنے خوابوں کی تعبیر کی جستجو میں، علم کی جستجو میں۔ کوئی سفید کوٹ میں ڈاکٹر بننے ، کوئی انجینئرنگ کے فارمولے سیکھنے، تو کوئی بزنس کی دنیا میں اپنی راہ بنانے۔ سب کی آنکھوں میں ایک سا عزم، ایک سی امید اور ایک سا سوال تھا
“کیا یہ سرزمین ہمارے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتی ہے؟”
‏‎چین کی یہ تعلیمی بستیاں محض اینٹ اور پتھر سے بنی عمارتیں نہیں، بلکہ علم کے وہ قدیم مینار ہیں جہاں نسلوں نے اپنی قسمتیں سنواری ہیں۔ مگر یہ کہانی صرف کتابوں اور کلاس رومز کی نہیں، یہ ان خوابوں کی ہے جو لاہور، کراچی، اسلام آباد کے کسی خاموش کمرے میں بیٹھ کر دیکھے گئے، اور پھر ایک لمبا سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے۔
‏‎میرے اردگرد ہر چہرہ ایک کہانی تھا، ہر نظر میں ایک سوال، اور ہر راہ میں ایک نیا موڑ۔ یہ سفر صرف چین کی درسگاہوں تک محدود نہیں، بلکہ اس سے آگے نکل کر، پاکستان، مشرق وسطیٰ اور مغرب تک پھیلتا ہے۔ کیا یہ زمین ان نوجوانوں کو اپنا لے گی؟ یا یہ پرندے بالآخر واپس اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹیں گے؟
‏‎یہ سفر علم کا ہے، مگر یہ تلاش مستقبل کی بھی ہے۔ اس شہر کی ہر گلی، ہر یونیورسٹی، ہر کیفے ایک کہانی سنانے کو بے قرارہے
‏‎یہی سارے سوالات کافی کے ہر گھونٹ کے ساتھ مجھے گہری سوچ میں مبتلا کر رہے تھے سو میرا آج کا دن اپنی انہی سوچوں کی گتھیاں سلجھانے کا تھا۔
چین میں پاکستانی طلبہ کے لیے تعلیمی مواقع کی تلاش مجھے ایک ایسے سفر پر لے آئی جہاں ہر یونیورسٹی ، ایک نئی دنیا تھی، اور ہر شعبہ ایک نیا راستہ۔ یونیورسٹی کی پرانی عمارت کے قریب میں نے ایک سنجیدہ مگر پُروقار شخصیت کو دیکھا، جو کتاب کے صفحات پلٹ رہے تھے۔ میں نے ادب سے سلام کیا
“آپ پاکستانی ہیں؟” انہوں نے مسکراتے ہوئے میرا جائزہ لیا اور بیٹھنے کے پیشکش کی
“جی، مجھے آپ کی رہنمائ درکار ہے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو میں جاننا چاہتی ہوں کہ چین میں پاکستانی طلبہ کے لیے کون سی یونیورسٹیاں اور کون سے شعبے سب سے زیادہ موزوں ہیں۔” میں نے بغیر تمہید باندھے سوال کیا کہیں وہ مصروفیت کا بہانہ نا کردیں
پروفیسر نے عینک اتاری، ایک نظر مجھ پر ڈالی اور گویا ہوئے،
“چین ایک تعلیمی پاور ہاؤس ہے۔ یہاں کی یونیورسٹیاں بین الاقوامی معیار کی تحقیق، جدید تدریس، اور حکمت عملی سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ آئیں میں آپ کو چین کی چند اہم یونیورسٹیوں کے بارے میں بتاتا ہوں۔”
“جی “ میں نے اشتیاق سے سر ہلایا
1. پیکنگ یونیورسٹی (Peking University)
“بیجنگ میں واقع یہ یونیورسٹی چین کی آکسفورڈ سمجھی جاتی ہے۔ اگر آپ سماجی علوم، میڈیکل، بزنس، یا ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتی ہیں تو یہ ایک بہترین انتخاب ہے۔”یہ یونیورسٹی اپنی تحقیق، علمی ورثے، اور بین الاقوامی تعاون کی بدولت عالمی سطح پر شہرت رکھتی ہے۔
2. تسنگ ہوا یونیورسٹی (Tsinghua University) “یہ یونیورسٹی انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس، اور بزنس کے شعبوں میں چین کی سب سے نمایاں درسگاہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں جدید ترین ٹیکنالوجی اور عملی تحقیق پر زور دیا جاتا ہے۔”یہ یونیورسٹی بیجنگ میں واقع ہے اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے، جہاں سے فارغ التحصیل طلبہ دنیا کی بڑی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں۔
3. شنگھائی جیاو ٹونگ یونیورسٹی (Shanghai Jiao Tong University) “یہ یونیورسٹی انجینئرنگ، فنانس، اور بزنس اسٹڈیز کے لیے مشہور ہے۔ شنگھائی کی تیز رفتار معیشت کے بیچ واقع یہ ادارہ طلبہ کو جدید مارکیٹ کے مطابق تیار کرتا ہے۔”یہ یونیورسٹی دنیا کے بہترین بزنس اسکولوں میں شمار ہوتی ہے۔
4. زیجیانگ یونیورسٹی (Zhejiang University)
“ہانگژو میں واقع یہ یونیورسٹی بایوٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور نیچرل سائنسز میں بہترین تعلیم فراہم کرتی ہے۔ یہاں پاکستانی طلبہ کو تحقیق کے شاندار مواقع میسر آتے ہیں۔”
5. ووہان یونیورسٹی (Wuhan University)”یہ یونیورسٹی میڈیکل، انوائرمینٹل سائنس، اور انجینئرنگ کے حوالے سے بہترین مانی جاتی ہے۔ اس کا کیمپس بھی چین کے خوبصورت ترین کیمپسز میں شمار ہوتا ہے۔”
6. ہاربن انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (Harbin Institute of Technology) “اگر آپ کو روبوٹکس، ایرو اسپیس انجینئرنگ، یا مصنوعی ذہانت میں دلچسپی ہے تو یہ یونیورسٹی آپ کے لیے بہترین رہے گی۔”
7. فودان یونیورسٹی (Fudan University)
“شنگھائی میں واقع یہ یونیورسٹی بین الاقوامی تعلقات، میڈیا اسٹڈیز، اور اکنامکس کے لیے مشہور ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ دنیا کے بڑے اداروں میں کام کر رہے ہیں۔” یہ وہ یونیورسٹیاں ہیں جو اہم ہیں باقی تو ان گنت ہیں ۔۔۔
” میں اس قیمتی معلومات کے لیے بے حد شکر گزار ہوں اگر آپ اجازت دیں، تو میں مزید کچھ سوالات کے لیے آپ کا وقت لینا چاہوں گی۔
“ مجھے خوشی ہوگی اگر میں آپ کی مزید رہنمائی کر سکوں۔ بلا جھجھک اپنے سوالات پوچھیں۔” پروفیسر نے خوش دلی سے جواب دیا
“ مجھے بتائیے کہ چین میں پاکستانی طلبہ کے لیے بہترین شعبے کون سے ہیں ؟ یا پاکستان سے آنے والے طلبہ کن شعبوں میں جانا پسند کرتے ہیں ؟ میرے اس سوال کا پروفیسر نے مزید وضاحت سے جواب دیا
“اب میں آپ کو ان اہم شعبوں کے بارے میں بتاتا ہوں جن میں پاکستانی طلبہ کے لیے چین میں بہترین مواقع موجود ہیں۔”
میڈیکل سائنسز (MBBS, Pharmacy, Biomedical Engineering)ک”چین میں ایم بی بی ایس کرنے والے طلبہ کو عالمی معیار کے تدریسی ہسپتالوں میں انٹرنشپ کا موقع ملتا ہے۔ خاص طور پر ووہان یونیورسٹی، پیکنگ یونیورسٹی، اور سُوژو یونیورسٹی اس شعبے میں نمایاں ہیں۔”
*انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی ، میکانیکل، سول، اور کمپیوٹر سائنس *
انجینئرنگ کے میدان میں چین کی یونیورسٹیاں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ تسنگ ہوا یونیورسٹی، ہاربن انسٹیٹیوٹ، اور زیجیانگ یونیورسٹی اس شعبے میں سرفہرست ہیں۔”
بزنس، فنانس اور اکنامکس”اگر آپ کاروباری ذہن رکھتی ہیں تو چین میں فنانس اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کرنا ایک بہترین انتخاب ہوگا۔ شنگھائی جیاو ٹونگ یونیورسٹی اور فودان یونیورسٹی آپ کے لیے بہترین ثابت ہو سکتی ہیں۔”
کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس”آج کے دور میں یہ شعبہ بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اگر آپ ڈیٹا سائنس، سائبر سیکیورٹی، یا مصنوعی ذہانت میں مہارت حاصل کرنا چاہتی ہیں تو ہاربن انسٹیٹیوٹ اور تسنگ ہوا یونیورسٹی بہترین انتخاب ہیں۔”
بین الاقوامی تعلقات اور چینی زبان”پاکستان اور چین کے تعلقات کے پیش نظر، چینی زبان اور سفارتکاری میں مہارت حاصل کرنا ایک بہترین موقع ہے۔ بیجنگ نارمل یونیورسٹی اور نانجنگ یونیورسٹی اس کے لیے مشہور ہیں۔”
ماحولیاتی سائنس اور بایوٹیکنالوجی”اگر آپ ماحولیات اور نیو انرجی سسٹمز میں دلچسپی رکھتی ہیں تو ووہان یونیورسٹی اور چنگڈو یونیورسٹی میں تحقیق کے وسیع مواقع موجود ہیں ۔انہوں نے تفصیل سے جواب دیا
“کیا پاکستان اور چین کے درمیان کوئی مشترکہ تعلیمی پالیسی یا معاہدہ ہے جو پاکستانی طلبہ کے لیے تعلیمی مواقع کو فروغ دیتا ہو؟” میں نے بڑی ہی سنجیدگی سے اگلا سوال کیا
جی ہاں، پاکستان اور چین کے درمیان تعلیمی تعاون کے کئی معاہدے اور پالیسی فریم ورک موجود ہیں جو پاکستانی طلبہ کے لیے تعلیمی مواقع کو فروغ دیتے ہیں۔
1. چین-پاکستان تعلیمی تعاون– دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی اور تحقیقی تعاون کو بڑھانے کے لیے متعدد معاہدے کیے گئے ہیں۔ چین کی کئی یونیورسٹیاں پاکستانی طلبہ کو اسکالرشپس فراہم کرتی ہیں، اور دونوں ممالک کے ادارے باہمی تحقیقی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔
2. چینی اسکالرشپس اور وظائف– چین کی حکومت، چائنا اسکالرشپ کونسل (CSC)، اور مختلف چینی یونیورسٹیاں ہر سال پاکستانی طلبہ کو وظائف فراہم کرتی ہیں، تاکہ وہ چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔
‏3. CPEC اور تعلیمی مواقع– چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت بھی تعلیمی تعاون کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ کئی پاکستانی طلبہ کو چینی یونیورسٹیوں میں انجینئرنگ، بزنس، اور دیگر تکنیکی شعبوں میں تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ CPEC منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔
4. مشترکہ ڈگری پروگرامز – کچھ پاکستانی اور چینی یونیورسٹیوں نے مشترکہ ڈگری پروگرامز بھی شروع کیے ہیں، جن کے تحت طلبہ تعلیم کا ایک حصہ پاکستان میں اور ایک حصہ چین میں مکمل کر سکتے ہیں۔
5. مینڈارن لینگویج پروگرامز – چین میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبہ کے لیے چینی زبان (مینڈارن) سیکھنے کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں، تاکہ وہ چینی تعلیمی اور کاروباری ماحول میں بہتر طریقے سے ضم ہو سکیں۔
یہ تمام اقدامات چین اور پاکستان کے درمیان تعلیمی اور ثقافتی تعلقات کو مزید مضبوط بنا رہے ہیں، جس سے پاکستانی طلبہ کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم اور روزگار کے مواقع حاصل ہو رہے ہیں۔
“چین میں تعلیم صرف ڈگری لینے کا نام نہیں، بلکہ ایک نیا تجربہ، ایک نیا کلچر، اور ایک نئی دنیا دیکھنے کا موقع ہے۔ اگر آپ واقعی محنت کریں ، تو یہاں کے تعلیمی ادارے آپ کو عالمی معیار کی تعلیم اور بہترین مستقبل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔”
باتیں کرتے کرتے ‎ہم ایک ایسی راہداری میں پہنچے جہاں غیر ملکی طلبہ چینی زبان سیکھنے میں مصروف تھے۔ پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا،
“پاکستان اور چین کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے ہیں۔ اگر آپ سفارت کاری، بین الاقوامی تعلقات میں مہارت حاصل کرنا چاہتی ہیں تو مینڈارن سیکھنے سے نہ صرف چین میں مواقع بڑھتے ہیں، بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے ۔ پروفیسر نے تفصیل سے جواب دیا۔”
‏‎” جی ہاں بالکل ، کہا جاتا ہے کہ اگر تم کسی قوم کو سمجھنا چاہتے ہو تو اس کی زبان سیکھو۔ لیکن یہ اتنا بھی آسان نہیں ۔ چینی زبان کے الجھے ہوئے حروف کو سمجھنا ایسا ہی تھا جیسے پانی پر نقش بنانا۔ مگر انگریزی میں موجود تعلیمی پروگرامز نے ان رکاوٹوں کو یقینا کم کر دیا ہے
‏‎یونیورسٹی کیمپس میں گھومتے ہوئے، میں نے محسوس کیا کہ زبان اکثر بین الاقوامی طلبہ کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے، مگر چین نے اس مسئلے کا حل بھی خوبصورتی سے نکالا ہے۔زیادہ تر یونیورسٹیاں بین الاقوامی طلبہ کے لیے انگریزی میں پروگرامز پیش کرتی ہیں، جس سے پاکستانی طلبہ کے لیے تعلیم حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
“چین میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستانی طلبہ کے لیے نوکری کے کیا مواقع ہوتے ہیں؟ کیا چینی کمپنیاں غیر ملکی طلبہ کو ملازمت فراہم کرتی ہیں؟” یہ وہ سوال تھا جو کب سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا۔
پروفیسر پھر گویا ہوۓ ۔۔۔
‏‎”چین میں نوکری کے مواقع موجود ہیں، مگر یہ کسی آسان راستے کی طرح نہیں، بلکہ ایک ایسا دریا ہے جسے عبور کرنے کے لیے صبر، مہارت اور زبان پر عبور ضروری ہے۔ یہاں کی کمپنیاں بین الاقوامی ٹیلنٹ کو ضرور اپناتی ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ مقامی افراد کو ترجیح بھی دیتی ہیں۔ پاکستانی طلبہ جو یہاں اعلیٰ تعلیم کے بعد کام کرنے کے خواہشمند ہیں، انہیں نہ صرف اپنی فیلڈ میں مہارت حاصل کرنی ہوتی ہے بلکہ چینی ثقافت اور بزنس ایٹی کیٹ بھی سیکھنا پڑتا ہے۔مگر مسئلہ وہی ہے ؟؟؟
” چینی زبان ؟ “ میں نے فکرمندی سے کہا
‏‎” بالکل ۔۔۔ معیشت کی دنیا میں پاکستانیوں کے لیےشنگھائی اور بیجنگ کے مالیاتی مراکز میں کئی بین الاقوامی کمپنیاں موجود ہیں، جہاں اکنامکس اور بزنس گریجویٹس کے لیے کام کے مواقع دستیاب ہیں۔ کئی پاکستانی کمپنیوں نے بھی چین میں اپنی شاخیں کھولی ہیں، جہاں پاکستانی گریجویٹس کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک بڑی رکاوٹ موجود ہے—ورک ویزا۔ چین میں کام کرنے کے لیے ایک مضبوط اسپانسر شپ درکار ہوتی ہے، جو ہر کسی کو آسانی سے نہیں ملتی۔
اس کے علاوہ چین کی میڈیکل یونیورسٹیاں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں، مگر یہاں ایک غیر ملکی ڈاکٹر کے طور پر کام کرنا آسان نہیں۔ ایک تو چینی میڈیکل سسٹم پاکستان سے کافی مختلف ہے، دوسرا، یہاں مستقل بنیادوں پر کام کرنے کے لیے ایک خاص لائسنس درکار ہوتا ہے، جو صرف وہی غیر ملکی ڈاکٹر حاصل کر سکتے ہیں جو چینی زبان میں مہارت رکھتے ہوں اور مقامی امتحان پاس کریں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر پاکستانی ڈاکٹر چین میں پڑھائی مکمل کرنے کے بعد پاکستان، مشرق وسطیٰ یا یورپ کا رخ کرتے ہیں۔
بات پھر وہیں آگئ ہے کہ چینی زبان پر عبور ضرور ہے ؟ میں نے کہا
‏‎چین میں نوکری کی سب سے بڑی شرط چینی زبان پر عبور ہے۔ اگر آ پ مینڈارن سیکھ لیتے ہیں تو آپ کے لیے کئی دروازے کھل سکتے ہیں، ورنہ مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو پاکستانی طلبہ چین میں مستقل طور پر کام کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنی ڈگری کے ساتھ ساتھ زبان پر بھی محنت کرتے ہیں۔
‏‎چین میں کام کرنے کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں ؟ میں نے جلد سے اگلا سوال کیا
‏‎یہاں کے شہر جدید، سہولتوں سے بھرپور اور کاروباری مواقع سے لبریز ہیں۔ یہاں کی کمپنیاں دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور تحقیق میں مصروف ہیں۔ اگر کوئی پاکستانی طالب علم چین میں نوکری حاصل کر لے تو وہ ایک عالمی معیار کے ماحول میں کام کرے گا، جو کسی بھی کیریئر کے لیے بہت فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
‏‎مگر اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی ہیں:
‏‎چینی زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر غیر ملکیوں کو جونیئر پوزیشنز پر کام کرنا پڑتا ہے۔
‏‎ورک ویزا کے سخت قوانین کی وجہ سے زیادہ تر لوگ چین میں مستقل بنیادوں پر کام نہیں کر پاتے۔
‏‎چینی کمپنیاں مقامی افراد کو ترجیح دیتی ہیں، اور غیر ملکیوں کے لیے مواقع محدود ہوتے ہیں۔
“ مگر یہاں بہت سے پاکستانی پروفیسر انگریزی پڑھا رہے ہیں اس لحاظ سے چین میں پاکستانیوں کے لیے ٹیچنگ کے مواقع تو ہیں؟ “ میں نے سوال داغا
” ہاں، خاص طور پر اگر آپ اچھی انگریزی بول سکتے ہیں۔ کئی پاکستانی طلبہ یہاں اسکولوں، یونیورسٹیوں، یا پرائیویٹ انسٹیٹیوٹس میں پڑھاتے ہیں۔ مگر انہیں انگریزی پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہئیے “
“چین میں تعلیم حاصل کرنا ایک منفرد تجربہ ہوتا ہے، اور جب یہ سفر مکمل ہو جاتا ہے، تو پاکستانی طلبہ کے لیے جاب کے حوالے سے کیا نئے دروازے کھلتے ہیں ؟ میں نے مزید تفصیل جاننا چاہی
“چین میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، کسی بھی طالب علم کے سامنے تین اہم راستے ہوتے ہیں۔ اور یہ راستے انتخاب اور محنت پر منحصر ہیں۔”
پہلا چین میں نوکری کے مواقع جس پر ہم بات کرچکے ہیں تفصیل سے دوسرا پاکستان واپس جا کر کیریئر بنانا ۔ چین میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، کئی پاکستانی طلبہ پاکستان واپس آ کر اپنا کیریئر بناتے ہیں۔ چین میں حاصل کردہ علم اور تجربہ، پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھا دیتا ہے۔
“پاکستان میں چینی کمپنیوں کی موجودگی اور چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت کام کرنے والی کمپنیاں، چین سے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔” پروفیسر نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
*” کون سے شعبے پاکستان میں فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں؟ ” میں نے سوال کیا
” ‏CPEC اور چینی کمپنیاں: چین-پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت کام کرنے والی چینی کمپنیوں میں نوکری کے مواقع ہیں، خاص طور پر انجینئرنگ، آئی ٹی، اور بین الاقوامی تجارت میں۔
چین سے MBBS کرنے والے طلبہ پاکستان میں پریکٹس کے لیے NLE امتحان پاس کر کے ڈاکٹر بن سکتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبے میں چینی تعلیم یافتہ افراد کے لیے کئی مواقع ہیں، خاص طور پر مصنوعی ذہانت (AI)، ڈیٹا سائنس، اور نیوکلیئر انجینئرنگ میں۔
چین اور پاکستان کے تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں، اور چینی زبان جاننے والے طلبہ مترجم یا بزنس کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔
“چین میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں کن چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا ؟ کیا چین کی ڈگری کو پاکستان اور دوسرے ممالک میں مکمل تسلیم کیا جاتا ہے ؟ یہ سوال کب سے مجھے پریشان کر رہا تھا
“ نہیں کچھ فیلڈز میں چین کی ڈگری کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا، اور خاص طور پر میڈیکل کے لیے NLE امتحان ضروری ہوتا ہے یا پھر تیسرا آپشن ہے بیرون ملک جانا ۔۔۔
چین سے فارغ التحصیل پاکستانی طلبہ کے لیے تیسرا آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بیرون ملک اپنے کیریئر کے لیے قسمت آزمائیں۔
“چین کی ڈگری کو یورپ، امریکہ، یا مشرق وسطیٰ میں تسلیم کروا کر طالب علم مزید تعلیم یا نوکری کے لیے جا سکتے ہیں ۔” پروفیسر کی بات میں سنجیدگی تھی
“کن ممالک میں مواقع زیادہ ہیں؟ “ میں اپنے سوالات پوچھنے کی عادت سے خود پریشان ہوں ، مگر موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھی
“ بہت آسان میں اس کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں
چینی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل پاکستانی طلبہ کو مشرق وسطیٰ میں، خاص طور پر میڈیکل، انجینئرنگ، اور بزنس کے شعبوں میں اچھے ملازمت کے مواقع مل سکتے ہیں یعنی (UAE، سعودی عرب،قطر)
چین کی کچھ یونیورسٹیاں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں، اور یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ یورپ یا امریکہ جا کر مزید تعلیم یا نوکری کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
چین سے فارغ التحصیل افراد آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی تعلیم یا ورک پرمٹ کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں۔
“ کیا یہ سب واقعی اتنا آسان ہے “ میں نے فکر مندی سے پوچھا
نہیں بیرون ملک جانے کے کچھ چیلنجز بھی ہیں جیسے بعض ممالک میں چینی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اور اس لیے طلبہ کو مزید امتحانات پاس کرنے پڑ سکتے ہیں۔ ویزا اور ورک پرمٹ حاصل کرنا کچھ ممالک میں مشکل ہو سکتا ہے۔
“اوہ ! “ یہ سفر اتنا آسان نہیں ۔۔۔ “ میں نے تاسف سے سر ہلایا
چینی سرزمین میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد، پاکستانی طلبہ کے لیے کئی دروازے کھلتے ہیں۔ چین، پاکستان، یا کسی تیسرے ملک میں مواقع تلاش کرنے کے لیے ان کے پاس متعدد راستے ہیں، اور یہ راستے ان کے منتخب شعبے اور ذاتی محنت پر منحصر ہیں۔ “
ایک کپ کافی اور پروفیسر کے ساتھ طویل اور معلوماتی گفتگو کے بعد، وہ مسکراتے ہوئے اٹھے اور نرمی سے اجازت لیتے ہوئے کہا، ‘مجھے اب چلنا ہوگا، امید ہے کہ ہماری یہ بات چیت آپ کے لیے مددگار ثابت ہوگی۔’ یہ کہہ کر وہ آہستہ قدموں سے دروازے کی طرف بڑھے۔ میں نے مسکراتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا جبکہ میرے ذہن میں اب بھی بے شمار سوالات گردش کر رہے تھے۔
یونیورسٹی کے کیمپس سے نکلتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ یہ درسگاہیں صرف تعلیم نہیں دے رہیں، بلکہ ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے کے دروازے کھول رہی ہیں۔ جو تعلیم سے ملازمت تک کا سفر ہے، شاید میرے اگلے سفر کا راستہ کسی ایسے پاکستانی طالبعلم کی کہانی سے جڑا ہو جو انہی راہداریوں میں اپنے خوابوں کے تعاقب میں سرگرداں ہو۔ لیکن یاد رہے کہ چین میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کو یہاں ملازمت کے مواقع مل سکتے ہیں، مگر چین شہریت نہیں دیتا، اس کے باوجود یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں آپ کے لیے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔
ارم زہرا ۔ چین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں