“چینی ادب: سفرِ حرف و خیال”

ہوا میں صندل کی خوشبو تھی، یا شاید وہ خوشبو میرے تخیل کا فریب تھی۔ میں بیجنگ کے ایک قدیم کوچے میں کھڑی تھی، جہاں پرانے دروازے وقت کی خاموش گواہی دے رہے تھے، اور دیواروں پر گزری صدیوں کی سرگوشیاں نقش تھیں۔ آسمان ہلکی ہلکی سرمئی چادر اوڑھے تھا، جیسے یادداشت میں کوئی بھولا ہوا افسانہ ہو جو بارش کی پہلی بوند کے انتظار میں ٹھہرا ہو۔
میں نے اپنی انگلیاں اس دیوار پر پھیریں، جس کے رنگ مدھم پڑ چکے تھے۔ یہاں ہزاروں سال پرانی کہانیاں سانس لے رہی تھیں— شاید لی پو کی کوئی نظم، شاید لو شوئن کے کسی کردار کی آہ، یا شاید کوئی گمشدہ عشق، جو اب بھی ان پتھروں میں کہیں دفن تھا۔
“تمہیں معلوم ہے، یہ گلیاں کتنی پرانی ہیں؟” ایک مقامی لڑکی نے مجھ سے پوچھا۔
میں نے مسکرا کر گردن ہلائی۔ “ہاں، بالکل اتنی ہی پرانی جتنی کہانیوں میں لکھی ہوئی محبتیں۔”
چینی ادب کو پڑھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی قدیم قلعے کی بھول بھلیوں میں راستہ تلاش کرنا۔ ہر موڑ پر ایک نیا دروازہ کھلتا ہے، ایک نیا کردار سامنے آتا ہے، اور ہر سطر میں وہی شاعری سانس لیتی ہے جس نے کنفیوشس کے زمانے سے لے کر آج تک مسافروں کو مسحور کر رکھا ہے۔
یہ سفر صرف کتابوں کے صفحات پر نہیں، یہ زمین پر کھینچی ہوئی وہ لکیریں ہیں جن پر صدیوں سے لوگ چلتے آ رہے ہیں۔ میں بھی انہی لکھی ہوئی راہوں پر چلنے کے لیے آئی تھی— کسی لو شوئن کے کردار کی آنکھوں میں جھانکنے، کسی شاعرانہ ناول کے خوابوں میں اترنے، اور کسی قدیم دیوار کے سائے میں بیٹھ کر وہ کہانیاں سننے، جو آج بھی ہوا کے دوش پر بہتی ہیں۔ میرے سامنے زیاؤ کھڑی مسکرا رہی تھی۔ ایک عام چینی لڑکی، جو اردو بولنے کی کوشش میں الفاظ کو خاص انداز سے توڑ رہی تھی۔
“تم… اردو… لکھتی ہو؟”
میں نے سر ہلایا۔
“میں ایک کہانی کار اور شاعرہ ہوں”
“اوہ… یہ تو بہت خوشی کی بات ہے تو چین کے ادب کو کیسے جانتی ہو؟”
میں کچھ لمحے خاموش رہی۔ یہ سوال خود میرے لیے بھی نیا تھا۔ چین کا ادب؟ میں نے لو شون کو پڑھا تھا، مو یان کے “زندہ رہنے کا فن” کو محسوس کیا تھا، لی بائی کی شاعری میں کھوئی تھی، مگر کیا میں واقعی چین کے ادب کو جانتی تھی؟
کیا تم میری مدد کرو گی چین کے ادب کو سمجھنے میں ؟
“ہاں ضرور …” وہ مسکرائی…
میں نے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو شہر نیون روشنیوں میں گھرا تھا، مگر کہیں دور کسی گلی کے سرے پر، ماضی کے دروازے اب بھی آہستہ آہستہ کھل رہے تھے۔
چین کا ادب ایک ایسا سمندر ہے جس میں غزل کی نرمی، نظم کی روانی، اور افسانے کی گہرائی سب یکجا ہیں۔ یہاں شاعری صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے—ایک ایسا لمحہ جس میں قدرت، تاریخ، اور انسانی جذبات ایک ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ کلاسیکی چینی شاعری میں لی بائی کی رومانی چاندنی، دُو فُو کی المیہ صدائیں، اور وانگ وی کی فطرت سے جڑی خاموشیاں آج بھی زندہ ہیں۔ چین میں شاعری صرف ادب نہیں، بلکہ زندگی کا حصہ ہے، چائے کی خوشبو میں، قدیم مندروں کی خاموشی میں، اور پہاڑوں پر گونجتی ہواؤں میں۔ افسانوی ادب نے بھی وقت کے ساتھ ترقی کی، لو شون کی تحریروں میں انقلاب کی تپش، مو یان کے ناولوں میں حقیقت اور جادو کی آمیزش، اور ژانگ ای کی کہانیوں میں عورت کے جذباتی کرب کی جھلک سبھی اس معاشرے کی گہرائی کو بیان کرتی ہیں۔ چینی شاعری اور افسانوی ادب نے ہمیشہ تاریخ اور فلسفے کو اپنے اندر سموئے رکھا، اور یہی وہ عنصر ہے جو اسے محض لفظوں سے آگے لے جا کر ایک مکمل تہذیبی تجربہ بنا دیتا ہے۔
اگلی صبح زیاؤ نے اعلان کیا،
“ہم دیوارِ چین جا رہے ہیں۔”
“ارے بہت شکریہ میں اپنی اس ملنسار دوست کی پیشکش کیسے رد کرتی ” زیاؤ کی انگلش کافی اچھی ہے جبکہ وہ کچھ اردو بھی جانتی ہے ”
دیوار چین پہنچ کر میں نے اپنے چاروں طرف پھیلی وادیوں کو دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے تاریخ خود اپنے اوراق پلٹ رہی ہو۔ زیاؤ نے آہستہ سے کہا،
“جانتی ہو، لی بائی نے ایک نظم لکھی تھی، جس میں اس نے دیوارِ چین کی تنہائی کو محسوس کیا تھا؟”
اس نے کتاب نکالی اور آہستہ آہستہ پڑھنے لگی:
*”ہوا پہاڑوں سے سرکتی ہے،
وقت کسی بوڑھے درخت کے سائے میں بیٹھا اونگھ رہا ہے،
اور میں سوچتی ہوں کہ شاید
یہاں کی اینٹوں میں بھی کہانیاں سانس لیتی ہیں۔”*
میں نے دیوار کی پرانی اینٹوں کو چھوا— واقعی ان میں کوئی کہانی تھی، شاید وہی جو کسی گمشدہ سپاہی نے آخری رات چاند کے نیچے لکھی ہوگی۔
بیجنگ کے پرانے بازار میں گھومتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے میں لاہور کے کسی کوچے میں ہوں۔ دیواروں پر وقت کی دراڑیں تھیں، دکانوں میں وہی پرانی اشیا جو نجانے کتنے سالوں سے بکتی آ رہی تھیں— کاغذی چھتریاں، چینی مٹی کے برتن، اور موٹی جلد والی کتابیں، جن کے صفحات پر انگلی پھیرنے سے صدیوں کی گرد اڑتی محسوس ہوتی تھی۔
ایک دکان میں رک کر میں نے ایک پرانی کتاب اٹھائی، اس کا سرورق زرد ہو چکا تھا، شاید سورج کی روشنی یا شاید کسی ایسے شخص کے لمس سے جس نے اسے دہائیوں پہلے کھولا تھا۔ زیاؤ نے جھک کر دیکھا،
“یہ ہولان ریور کی کہانی ہے، ژاؤ ہونگ کی کتاب۔ ایک ایسے گاؤں کی کہانی، جہاں خواب صرف دریا کے پانی میں بہہ سکتے ہیں، حقیقت میں نہیں۔”
میں نے کتاب خرید لی۔میرے کمرے کی الماری میں پہلے ہی کئی کتابیں بےترتیب رکھی تھیں، مگر یہ کتاب ان سب سے مختلف تھی۔ یہ ایک زمین، ایک تہذیب، اور شاید خود مجھ سے جڑی ہوئی تھی۔ گھر کی بالکنی میں بیٹھ کر میں نے کتاب کھولی۔ کہیں دور بیجنگ کا آسمان نیلا دھواں اوڑھے تھا، اور ہوا میں ایک پرانی نظم کی سرگوشی تھی:
*”چاند نیچے وادیوں میں بہہ رہا ہے،
دیواروں پر وقت کا سایہ رینگ رہا ہے،
اور کسی سفرنامے کی پہلی رات میں،
کہانی ابھی باقی ہے !
چین کی سرزمین صرف دیواروں اور معبدوں کی نہیں، یہ شاعری کی دھرتی ہے—وہ شاعری جو دریا کے بہاؤ میں، پہاڑوں کی خاموشی میں، اور چاندنی راتوں کی اداسی میں بسی ہوئی ہے۔
لی بائی (Li Bai) اور چاندنی راتوں کی تنہائی*
چین کی راتیں الگ سی ہوتی ہیں۔ یہاں چاندنی کسی اور ہی انداز میں زمین پر اترتی ہے—کسی یاد کی طرح، کسی نظم کی طرح۔ لی بائی، جو چین کے سب سے مشہور شاعروں میں سے ایک تھے، ان کی شاعری میں چاند ایک خاص استعارہ بن کر ابھرتا ہے—تنہائی، یاد اور خوابوں کا استعارہ۔

> *床前明月光,*
> *疑是地上霜。*
> *举头望明月,*
> *低头思故乡。*

**(میرے بستر کے سامنے چاندنی کی جھلک ہے،
یوں لگتا ہے جیسے زمین پر کہر جم گئی ہو۔
میں چاند کی طرف دیکھ کر سر اٹھاتا ہوں،
اور پھر سر جھکا کر اپنے وطن کو یاد کرتا ہوں۔)**

یہ شعر اس رات میرے دل میں اترا، جب میں دیوارِ چین کے قریب ایک سنسان مقام پر کھڑی تھی۔ سرد ہوا چل رہی تھی، اور چاندنی کسی بچھڑ جانے والے دوست کی طرح زمین پر بکھری ہوئی تھی۔ اس لمحے میں نے محسوس کیا کہ سفر کرنے والے ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کو یاد کرتے ہیں—کبھی اپنا گھر، کبھی کوئی لمحہ، کبھی کوئی بچھڑ جانے والا خواب
دو فو (Du Fu) اور وقت کے زخم*
دیوارِ چین کے بلند حصے پر کھڑے ہو کر میں نے نیچے پھیلے ہوئے منظر کو دیکھا—پہاڑ، دریا، گھاٹیاں، اور کہیں دور ایک خاموش بستی۔ چین کی تاریخ جنگوں، بغاوتوں، اور زخموں سے بھری ہوئی ہے۔ اس تاریخ کی سب سے خوبصورت مگر اداس بازگشت دو فو کی شاعری میں سنائی دیتی ہے۔

> *国破山河在,*
> *城春草木深。*

**(ملک برباد ہو چکا ہے، مگر پہاڑ اور دریا اب بھی باقی ہیں،
شہر میں بہار آ چکی ہے، مگر ہر شے گھاس اور درختوں میں ڈھک گئی ہے۔
یہ نظم تانگ سلطنت کے زوال کے دوران لکھی گئی تھی، مگر جب میں نے بیجنگ کے قدیم قلعوں کی دیواروں کو چھوا، تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ الفاظ آج بھی زندہ ہیں۔ تاریخ مٹتی نہیں، صرف ایک نئے رنگ میں ڈھلتی ہے۔
وانگ وی (Wang Wei) اور خاموشی کی گونج*
بیجنگ سے باہر، جب چین کے دیہی علاقوں میں پہنچی، تو وہاں کے سنسان پہاڑوں اور پرسکون وادیوں میں ایک الگ ہی سکون تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ جگہیں کسی نظم میں سانس لے رہی ہوں، جیسے یہاں خاموشی کے بھی معنی ہوں۔ وانگ وی، جو نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ ایک مصور بھی تھے، ان کی شاعری میں یہی سکون جھلکتا ہے۔

> *空山不见人,*
> *但闻人语响。*
> *返景入深林,*
> *复照青苔上。*

**(خالی پہاڑ، کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا،
مگر دور کہیں باتوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
سورج کی روشنی جنگل کے اندر گہری ہوتی جا رہی ہے،
اور سبز کائی پر آ کر دوبارہ چمکنے لگی ہے۔)**

یہ وہ لمحہ تھا جب میں ایک قدیم بدھ مندر کے قریب کھڑی تھی، جہاں ہوا بھی دھیرے دھیرے چلتی تھی۔ یہاں وقت رک سا گیا تھا، جیسے کسی نے نظم کے درمیان ایک وقفہ لے لیا ہو۔
لُو یو (Lu You) اور بچھڑنے کی اداسی*
چین کا سفر صرف دیواروں اور پہاڑوں کا نہیں، یہ دل کے سفر کی بھی کہانی ہے۔ کبھی کبھی کسی گلی میں، کسی جھیل کے کنارے، یا کسی قدیم باغ میں چلتے ہوئے دل میں ایک گہری اداسی اتر آتی ہے—وہی اداسی جو لُو یو کی شاعری میں ہے۔

> *红酥手,黄藤酒,*
> *满城春色宫墙柳。*
> *东风恶,欢情薄,*
> *一杯愁绪,几年离索。*

**(سُرخ نرم ہاتھ، پیلے رنگ کی شراب،
شہر میں بہار چھا چکی ہے، محل کی دیواروں پر بید کے درخت لہرا رہے ہیں۔
مگر مشرقی ہوا سخت ہو چکی ہے، محبت مدھم پڑ گئی ہے،
ایک پیالہ غم، کئی سال کی جدائی کا قصہ۔)**

جب میں نے یہ نظم پڑھی، تو یوں محسوس ہوا جیسے چین کے قدیم باغوں میں کہیں کوئی کہانی بکھری ہوئی ہو—ایسی کہانی جسے کوئی سنانے والا نہیں، مگر جو ہوا میں اب بھی سانس لے رہی ہے۔
یہ سفر صرف جغرافیہ کا نہیں تھا، یہ ان نظموں کے ساتھ چلنے کا تھا جو صدیوں سے زندہ ہیں۔ میں چین میں نہیں تھی، میں شاعری کی زمین پر تھی—ایک ایسی زمین، جہاں ہر دریا ایک شعر کی طرح بہتا ہے، ہر پہاڑ ایک نظم کی طرح خاموش کھڑا رہتا ہے، اور ہر چاندنی رات لی بائی کے خوابوں کی طرح زمین پر بکھرتی ہے۔
چین میں کئی موسم گزر گئے، کئی بار بہار نے گلابی پھولوں کی چادر بچھائی، کئی بار خزاں نے سنہرے پتوں کی نظمیں لکھی۔ میں اب یہاں کی گلیوں، پہاڑوں، قدیم دروازوں اور بارش میں بھیگتے مندروں کو اجنبی نظروں سے نہیں دیکھتی۔ وقت کے ساتھ یہ سب میرے اندر کہیں گھر کر چکے ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں، کیا یہ چین ہے جو میرے اندر بسا ہے، یا میں خود اس سرزمین کا کوئی بھولا ہوا خواب بن چکی ہوں؟
رات کے آخری پہر میں، جب خاموشی شہر پر اترتی ہے، میں اپنی کھڑکی سے چاند کو دیکھتی ہوں۔ لی بائی کا وہی قدیم شعر، جو شاید ہر مسافر کے دل میں کبھی نہ کبھی گونجتا ہے، میرے ہونٹوں پر آ جاتا ہے:

> *举头望明月,低头思故乡。
> (سر اٹھا کر چاند کو دیکھتی ہوں، پھر سر جھکا کر اپنے وطن کو یاد کرتی ہوں۔)

مگر اب یہ شعر کسی یاد، کسی دوری، کسی بچھڑنے کی کیفیت میں نہیں گونجتا۔ اب یہ میرے اندر ایک سوال جگاتا ہے—وطن کیا ہے؟ وہ سرزمین جہاں ہم پیدا ہوتے ہیں یا وہ جگہ جہاں ہماری روح کو سکون ملتا ہے؟

بیجنگ کی قدیم گلیوں میں چلتے ہوئے، کسی مٹیالی دیوار پر ہاتھ رکھتے ہوئے، کسی معبد کے خاموش صحن میں کھڑے ہو کر، میں محسوس کرتی ہوں کہ شاید ہر سفر کا اصل راز یہی ہوتا ہے—ہم وہاں پہنچتے نہیں جہاں جانے کا خواب دیکھتے ہیں، بلکہ وہ مقام خود ہمارے اندر کہیں جاگ اٹھتا ہے۔
لیکن پھر، کہیں دور سمندر کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں—نہیں، یہ حقیقت میں نہیں، یہ میرے اندر ہے۔ وہی شور جو کراچی کے ساحل پر لہروں کے ساتھ اٹھتا تھا، وہی جو کلفٹن کے ریتیلے کنارے پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے محسوس ہوتا تھا، وہی جو میرے شہر کی مصروف سڑکوں میں، بسوں کے ہارن اور پرانی چائے خانوں کی گپ شپ کے بیچ بھی کہیں سنائی دیتا تھا۔ ایسے میں کہیں دور سے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے—نہیں، یہ حقیقت میں نہیں، یہ میرے اندر ہے۔ وہی آواز جو لاہور کی صبحوں میں سنائی دیتی تھی، وہی جو اسلام آباد کی پہاڑیوں کے سائے میں گونجتی تھی، وہی جو میرے گھر کے قریب ہی مسجد کے مینار سے اٹھ کر فضا میں پھیلتی ہے۔ میں رک جاتی ہوں۔ پاکستان میرے اندر زندہ ہے،
اور آج، جب میں چین کے کسی قدیم کوچے میں چاولوں کی بھاپ اٹھتے دیکھتی ہوں، یا دیوارِ چین کی اونچائی پر کھڑے ہو کر ہوا کے لمس کو محسوس کرتی ہوں، تو یہ لمحے مجھے واپس اپنے شہر میں لے جاتے ہیں۔
*شاید میں کراچی میں ہوں، شاید میں چین میں ہوں، شاید میں دونوں جگہ ہوں۔*
یا شاید وطن کی سرحدیں وہ نہیں جو نقشے پر بنی ہیں، بلکہ وہ ہیں جو دلوں میں بسی ہوتی ہیں۔
ارم زہراء چین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں