پہاڑ ،بادل اور خانقاہیں چین کا ایک صوفیانہ منظرنامہ….ارم زہرا

‎صبح کا سورج ابھی پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہلکی سی کرن بکھیر رہا تھا ہوامیں
‎ٹھنڈک اور کسی انجانی خوشبو کی لپٹیں گھلی ہوئی تھیں۔ میں جب پہاڑ کے دامن سے اوپر کی طرف چڑھنے لگی تو یوں محسوس ہوا جیسے ہر قدم مجھے اپنی ذات کے اندر کہیں اور گہرا کر رہا ہے۔ راستہ پتھریلا ضرور تھا مگر خاموشی ایسی جیسے وقت تھم گیا ہو۔ بس کبھی کبھار کسی پرندے کی صدا یا ہوا کے جھونکے میں درختوں کے پتے سرسرا کر مجھ سے باتیں کرنے لگتے۔
‎چین کے پہاڑ اور خانقاہیں دیکھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ فطرت میں غور و فکر انسان کو اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت کا احساس دلاتا ہے۔ قرآن کی وہ آیات یاد آئیں جو ہمیں تدبر کرنے کی دعوت دیتی
‎ہیں “أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ…”، یعنی اللہ کی مخلوقات میں غور کرنے سے انسان اپنے رب کی عظمت کو پہچان سکتا ہے۔ ہر چوٹی، ہر وادی، ہر جھونکا جیسے یہ کہہ رہا ہو کہ
‎”غور کرو، سکون تلاش کرو، اور اپنی روح کو بلند کرو۔”
‎چند ہی لمحوں بعد سامنے ایک قدیم دروازہ ابھرا۔لکڑی کا وہ دروازہ
‎صدیوں کی تھکن لیے کھڑا تھا، اور اس پر وقت کے ہاتھوں کے بنے زخم تھے، لیکن اس کی عظمت میں کوئی کمی نہ تھی۔ جیسے کسی صوفی درویش کی آنکھوں میں برسوں کی ریاضت کے باوجود سکون اور انکسار جھلکتا ہے۔ اندر داخل ہوئی تو ہلکی سی خوشبو نے استقبال کیا، لوبان اور جلتے ہوئے عود کی ملی جلی خوشبو جو دل کے اندھیروں کو اجالے میں بدل دیتی ہے۔
‎ہال کے وسط میں ایک بلند قامت بودھ مجسمہ خاموشی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ آنکھیں نیم وا، ہونٹوں پر پرسکون تبسم، اور پورا وجود گویا عبادت کی تفسیر۔ میں نے سوچا کہ اگرچہ یہ اسلامی خانقاہ نہیں، مگر یہاں کی خاموشی اور ریاضت کی فضا ہمیں توحید، سکونِ قلب، اور روحانی بلندی کا سبق دیتی ہے۔
‎خانقاہ کے ایک گوشے میں نوجوان راہب کتابوں میں ڈوبے بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھوں میں دنیاوی خواہشوں کی چمک نہیں، بلکہ نور تھا جو مسلسل عبادت اور مطالعے سے پیدا ہوتا ہے۔ میں نے انہیں دیکھ کر سوچا کہ اسلامی صوفیا جیسے امام غزالی یا بہاءالدین نقشبندی بھی اپنی ریاضت اور ذکر کے ذریعے اسی روشنی کو حاصل کرتے تھے۔
‎پہاڑی کے دامن سے اوپر بڑھتے ہوئے ایک چھوٹی سی گھنٹی ہوا کے ساتھ بجتی ہے۔ ہر جھونکے پر وہ نرم سا نغمہ بکھرتا اور میرے دل کی دھڑکن اس کی لے میں شامل ہو جاتی۔ وہاں کھڑے ہو کر مجھے یوں لگا جیسے زمین اور آسمان کے بیچ میرا وجود کہیں تحلیل ہو رہا ہے، اور اللہ کی عظمت کے سامنے میری عاجزی محسوس ہوتی ہے۔
‎خانقاہ کے صحن سے نیچے جھانکا تو وادیاں سبز چادر اوڑھے سو رہی تھیں۔ بادل کبھی پہاڑ کی چوٹیوں کو چھوتے، کبھی نیچے اتر کر درختوں سے لپٹ جاتے۔ منظر ایسا تھا جیسے قدرت نے کینوس پر سکون کے رنگ بکھیر دیے ہوں۔ میں نے دعا کی کہ اللہ ہمیں اپنی تخلیق میں غور و فکر اور اس کے نزدیک ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
‎اس تجربے نے مجھے سمجھایا کہ چین کے پہاڑ اور خانقاہیں صرف زمین کے حسین مناظر یا تاریخی مقامات نہیں، بلکہ وہ ہمیں روحانی سکون، اخلاقی سبق، اور اللہ کی عظمت کا احساس دینے والی جگہیں ہیں۔ انسانی زندگی میں غور و فکر، عبادت، صبر، اور عاجزی کی اہمیت یہاں سے عیاں ہوتی ہے، اور یہی سفر کو صرف جسمانی نہیں بلکہ روحانی اور معرفتی سفر بھی بناتا ہے۔
تو چین کا ذکر ہو اور اس کی پہاڑی خانقاہوں کا ذکر نہ آئے، یہ ممکن ہی نہیں۔ اس سرزمین نے صدیوں سے روحانیت اور قدرت کے میل کو یوں جوڑا ہے کہ انسان حیرت کے ساتھ سکون بھی پاتا ہے۔ یہاں کے پہاڑ محض پتھر اور چٹان نہیں، بلکہ صدیوں کے گواہ ہیں ۔ ریاضتوں کے، عبادتوں کے اور خاموش دعاؤں کے۔
سب سے پہلے مجھے یاد آتا ہے ہوانگ شان (Huangshan) کا پہاڑی سلسلہ۔ یہ پہاڑ اپنی سنہری چوٹیوں اور بادلوں کے سمندر کے لیے مشہور ہیں۔ جب دھند پہاڑوں کے گرد لپٹ جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی صوفی اپنی چادر اوڑھ کر ذکر میں محو ہو۔ ہوانگ شان کے مناظر میں ایک عجیب طرح کی شاعری ہے، گویا پہاڑ خود کائنات کے مسودے پر غزل لکھ رہے ہوں۔
پھر آتا ہے ووتائی شان (Wutai Shan)، جسے بودھ مت کا روحانی دل کہا جاتا ہے۔ پانچ چوٹیوں پر پھیلی یہ سرزمین راہبوں اور خانقاہوں سے لبریز ہے۔ یہاں کی خاموش فضاء میں قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دل کے شور کو کوئی نادیدہ ہاتھ تھام کر روک دے۔ لکڑی کے قدیم مندر، گھومتے ہوئے دعا کے پہیے، اور راہبوں کے نرم لہجے قاری کے دل کو نرمی اور سکون عطا کرتے ہیں۔
اسی طرح ایمی شان (Emei Shan) کا پہاڑ ہے، جو چین کے چار مقدس بودھ پہاڑوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی سبزہ زاریاں، جھرنے بھی یوں لگتے ہیں جیسے قدرت خود عبادت میں شریک ہو گئی ہو۔ چوٹی پر پہنچ کر جو منظر نظر آتا ہے، وہ انسان کو اپنے وجود کی حقیقت یاد دلا دیتا ہے ۔ہم سب بادلوں کی طرح لمحاتی ہیں، مگر پہاڑ کی طرح پائدار ہونے کی آرزو رکھتے ہیں۔
پوتالا پیلس (Potala Palace) بھی یاد آتا ہے، جو تبت کی فضاؤں میں ایستادہ ہے۔ اگرچہ یہ ایک قلعہ نما خانقاہ ہے مگر حقیقت میں عبادت اور سیاست دونوں کا مرکز رہا۔ اس کے سرخ و سفید دیواریں سورج کی کرنوں میں یوں چمکتی ہیں جیسے کسی عاشق نے اپنی محبت کو سنگ مرمر پر کندہ کر دیا ہو۔
ان پہاڑوں اور خانقاہوں میں گھومتے ہوئے بار بار مجھے اپنا کراچی یاد آتا ہے۔ سمندر کی لہروں کا شور، مزارِ قائد کی سنگین خاموشی، اور ان راستوں کی گہما گہمی مگر یہاں چین میں پہاڑوں کی تنہائی اور خانقاہوں کی خاموشی میرے اندر کے دوسرے زاویے کو جگاتی ہے۔ یہ زاویہ وہ ہے جو شور سے بھاگ کر سکوت کی پناہ ڈھونڈتا ہے۔
چین کی سرزمین صرف صنعت و تجارت کی پہچان نہیں، بلکہ یہ روحانیت اور سکون کی بھی گہوارہ ہے۔ یہاں کے پہاڑ اور ان پر بنی خانقاہیں صدیوں سے اہلِ چین کے دلوں کو سہارا دیتی آئی ہیں۔ عام تصور یہ ہے کہ خانقاہیں صرف مذہبی عبادت کے لیے مخصوص ہیں، مگر چین میں ان کی اہمیت کہیں زیادہ وسیع اور گہری ہے۔
اہمیت کی پہلی صورت روحانی ہے۔ ہمالیہ کی آغوش سے لے کر صوبہ سیچوان اور تبت کی وادیوں تک، ہر جگہ خانقاہیں اس بات کی علامت ہیں کہ انسان صرف جسمانی دنیا کا محتاج نہیں بلکہ روحانی سکون کا بھی متلاشی ہے۔ بودھ راہب ان خانقاہوں میں عبادت اور مراقبہ کرتے ہیں، لیکن وہاں آنے والے عام چینی افراد محض مذہبی رسومات کے لیے نہیں آتے؛ وہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور زندگی کے شور سے دور ہونے کے لیے بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
دوسری اہمیت ان خانقاہوں کی ثقافتی ہے۔ ہوانگ شان، ایمی شان اور ووتائی شان جیسے مقامات کو نہ صرف مقدس سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ چین کے فنِ تعمیر، مصوری اور فلسفے کی جیتی جاگتی مثالیں بھی ہیں۔ قدیم لکڑی کے مندر، رنگین چھتوں پر کندہ ڈریگن، اور خانقاہوں کے صحن میں لہراتے دعا کے جھنڈے ۔ یہ سب چین کی تہذیبی تاریخ کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقامات یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔
اہمیت کی تیسری جہت معاشرتی ہے۔ خانقاہیں آج بھی سماجی زندگی کا حصہ ہیں۔ یہاں کے تہوار، دعائیہ اجتماعات اور خیرات کے کام لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جدید چین کے نوجوان بھی، جو ٹیکنالوجی اور تیز رفتار زندگی کے اسیر ہیں، کبھی کبھی خانقاہوں میں آ کر سکون تلاش کرتے ہیں۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جہاں ایک طرف وہ ورچوئل دنیا میں کھوئے ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف خانقاہ کے خاموش صحن میں بیٹھ کر خود کو پہچاننے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
رہا سوال تعداد کا تو چین میں ہزاروں خانقاہیں اور مندر موجود ہیں۔ صرف چار بڑے مقدس پہاڑ ووتائی شان، ایمی شان، پوٹو شان (Putuo Shan) اور جُوہوا شان (Jiuhua Shan) ہی ایسے ہیں جہاں سالانہ لاکھوں زائرین آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ زائرین مذہبی عقیدت کے ساتھ آتے ہیں، اور کچھ صرف سیاح کی حیثیت سے۔ لیکن ہر آنے والا، خواہ کسی بھی نیت سے آیا ہو، اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ سکون اور حیرت ضرور لے کر لوٹتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہاڑی خانقاہیں چینی معاشرت کا آئینہ ہیں۔ یہاں مذہب، ثقافت، تاریخ اور قدرت آپس میں یوں گھل مل گئے ہیں کہ الگ الگ دیکھنا ممکن نہیں رہا۔ اور شاید یہی ان کی اصل اہمیت ہے کہ یہ خانقاہیں انسان کو یہ سبق دیتی ہیں کہ مادّی ترقی کے باوجود روحانی سکون کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔
چین کی پہاڑی خانقاہیں صدیوں سے سکون اور عبادت کی علامت رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آج کے دور میں، جب چین ایک جدید اور تیز رفتار ملک بن چکا ہے، کیا ان خانقاہوں کی اہمیت اب بھی باقی ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں دو نسلوں کے رویوں سے ملتا ہے ۔نوجوانوں اور بزرگوں سے۔
بزرگ نسل کے لیے یہ خانقاہیں محض مذہبی یا تاریخی عمارتیں نہیں، بلکہ ان کے دل کی دھڑکن ہیں۔ وہ ان خانقاہوں کو ایک ایسی پناہ گاہ سمجھتے ہیں جہاں انسان اپنی اصل سے جڑ جاتا ہے۔ بزرگ اکثر بتاتے ہیں کہ ان کے والدین یا دادا دادی پہاڑوں پر جا کر خانقاہوں میں دن گزارتے، مراقبہ کرتے اور زندگی کے فیصلوں میں رہنمائی پاتے تھے۔ آج بھی وہ وہاں جا کر شمعیں جلاتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں اور اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ سکون اور دعا کے بغیر زندگی کا سفر ادھورا ہے۔ ان کے نزدیک خانقاہیں تاریخ کا تسلسل اور روحانیت کی بقا ہیں۔
دوسری طرف نوجوان نسل کا تعلق ان خانقاہوں سے کچھ مختلف ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو اسمارٹ فون، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل دنیا کے شور میں پلی بڑھی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی نوجوانوں میں ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو خانقاہوں کا سفر محض سیاحت کے لیے نہیں بلکہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کرتی ہے۔ وہ خانقاہوں کے خاموش صحن میں بیٹھ کر خود کو “ڈیجیٹل شور” سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر نوجوان کہتے ہیں کہ خانقاہ کا سکوت انہیں ایسی طاقت دیتا ہے جو کسی بھی اسکرین پر نہیں ملتی۔
ہاں، یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ نوجوان خانقاہوں کو صرف “قدیم یادگار” سمجھتے ہیں، جنہیں سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ عبادت گاہیں نہیں بلکہ فوٹوگرافی کے مقام ہیں۔ لیکن پھر بھی جب وہ ان بلند چوٹیوں اور قدیم دروازوں کے بیچ کھڑے ہوتے ہیں تو دل کی گہرائیوں میں ایک لمحے کو ہی سہی، مگر خاموشی کا اثر ضرور محسوس کرتے ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ خانقاہوں کی اہمیت کا رنگ دونوں نسلوں میں مختلف ہے۔ بزرگ ان خانقاہوں کو عقیدت اور روایت کے چشمے سے دیکھتے ہیں، جبکہ نوجوان انہیں زیادہ تر “تجربے” اور “احساس” کے طور پر اپناتے ہیں۔ لیکن دونوں کے لیے یہ ماننا لازم ہے کہ خانقاہیں چین کی تہذیبی اور روحانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔
وقت کے بدلتے تقاضوں کے باوجود ان کی معنویت ختم نہیں ہوئی، بلکہ ایک نئے انداز میں زندہ ہے۔ بزرگ ان میں عقیدت تلاش کرتے ہیں، اور نوجوان سکون۔ شاید یہی ان خانقاہوں کی اصل طاقت ہے کہ ہر نسل اپنے حال اور ضرورت کے مطابق ان سے روشنی حاصل کر لیتی ہے۔
چین کی پہاڑی خانقاہیں محض مذہبی مقام نہیں رہیں۔ وہ آج کی معاشرت اور معیشت میں بھی اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں۔ یہ وہ عجیب امتزاج ہے جہاں صدیوں پرانی روحانیت اور جدید دنیا کا دھڑکتا ہوا نظام ایک دوسرے سے جُڑتے ہیں۔
معاشرتی سطح پر یہ خانقاہیں لوگوں کے لیے اجتماع کا ذریعہ ہیں۔ یہاں صرف راہب یا عبادت گزار نہیں آتے بلکہ عام لوگ بھی اپنے خاندان کے ساتھ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ تہواروں کے دنوں میں یہ خانقاہیں روشنیوں سے جگمگاتی ہیں، دعائیہ اجتماعات میں بزرگ ہاتھ جوڑتے ہیں اور نوجوان موبائل سے لمحے قید کرتے ہیں۔ اس منظر میں ایک خاص ہم آہنگی جھلکتی ہے ۔بزرگوں کی عقیدت اور نوجوانوں کی جستجو ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر معاشرتی وحدت کو ظاہر کرتی ہے۔ یوں خانقاہیں نہ صرف عبادت گاہ بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کے پلیٹ فارم بن جاتی ہیں۔
معاشی سطح پر بھی ان خانقاہوں کی حیثیت اہم ہے۔ چین میں سیاحت ایک بڑی صنعت ہے اور پہاڑی خانقاہیں اس صنعت کا مرکزی حصہ ہیں۔ ایمی شان، ووتائی شان اور پوٹو شان جیسے مقدس مقامات پر ہر سال لاکھوں زائرین اور سیاح آتے ہیں۔ ان کے آنے سے مقامی لوگوں کو روزگار ملتا ہے ۔ ہوٹل، ریسٹورنٹ، ٹرانسپورٹ اور دستکاری سب کا روزگار ان خانقاہوں کے گرد گھومتا ہے۔ ایک چھوٹے گاؤں کے مقامی تاجر کے لیے خانقاہ کے قریب کھڑی ایک چھوٹی سی چائے کی دکان زندگی کا سہارا ہے۔
خانقاہیں چین کے “کلچرل ڈپلومیسی” کا حصہ بھی ہیں۔ دنیا بھر سے لوگ ان خانقاہوں کو دیکھنے آتے ہیں، ان کے بارے میں پڑھتے ہیں اور یوں چین کی ثقافت دنیا کے سامنے ایک نرمی اور روحانیت کے ساتھ ابھرتی ہے۔ یہ وہ رخ ہے جو تیز رفتار صنعت، بلند و بالا عمارتوں اور شور مچاتے بازاروں میں نظر نہیں آتا۔
لیکن سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ خانقاہیں اب بھی انسان کی روحانی پیاس بجھانے میں کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایک طرف بزرگ عقیدت کے ساتھ ان خانقاہوں میں دعائیں مانگتے ہیں، اور دوسری طرف نوجوان، جو ٹیکنالوجی کے ہجوم میں کھوئے ہوئے ہیں، یہاں سکون ڈھونڈنے آتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان معاشرتی رشتہ بھی مضبوط ہوتا ہے اور مقامی معیشت کو سہارا بھی ملتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ خانقاہیں آج کے چین میں نہ تو ماضی کی صرف یادگار ہیں اور نہ ہی محض سیاحتی مقام؛ یہ معاشرت کے دھڑکتے دل اور معیشت کے سانس لیتے رگ و پے ہیں۔ وہ انسان کو یہ سبق دیتی ہیں کہ اگرچہ زمانہ بدل گیا ہے، لیکن سکون، تعلق اور روزگار تینوں کو جوڑنے والا دھاگا اب بھی ان پہاڑی خانقاہوں سے بندھا ہوا ہے۔
چین کے پہاڑی سلسلے اور ان پر بنی خانقاہیں صرف روحانیت اور تاریخ کی علامت نہیں ہیں، بلکہ قدرت کے حیرت انگیز کینوس بھی ہیں۔ ہوانگ شان، ایمی شان، ووتائی شان یا پوٹو شان ہر پہاڑ، ہر وادی، ہر جھاڑی اور ہر درخت یہاں کے ماحول کا حصہ ہے، جو انسان کے دل کو ایک نرمی اور سکون سے بھر دیتا ہے۔
جب میں خانقاہوں کے صحن سے باہر نکل کر پہاڑوں کے درمیان چلتی ہوں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے ہر منظر کو عبادت کا روپ دے دیا ہے۔ بادلوں کی لپٹیں چوٹیوں سے نیچے اترتی ہیں، پتھریلے راستے سبزہ زاروں سے لپٹ جاتے ہیں اور جھرنے، چھوٹے چھوٹے چشموں کی صورت میں اپنے نغمے گنگناتے ہیں۔ یہ منظر صرف آنکھوں کے لیے نہیں، بلکہ روح کے لیے بھی غذائیت ہے۔
ماحولیاتی لحاظ سے یہ پہاڑ اور خانقاہیں انتہائی اہم ہیں۔ یہاں کے جنگلات ہوا کو صاف رکھتے ہیں، زمین کو مستحکم کرتے ہیں اور متعدد پرندوں اور جانوروں کی پناہ گاہ بھی ہیں۔ کئی مقامات پر پانڈا کی محفوظ جنگلی زندگی، بندر، اور نایاب پرندے نظر آتے ہیں۔ یہ سب بتاتے ہیں کہ انسان کی عبادت کے ساتھ ساتھ قدرت کی حفاظت بھی اتنی ہی ضروری ہے۔
خانقاہوں کی تعمیر بھی ماحول دوست اصولوں کے مطابق کی گئی ہے۔ لکڑی کے قدیم ستون، چھتوں کی رنگت اور پتھریلے صحن، سب قدرتی مواد سے بنائے گئے ہیں تاکہ پہاڑ کی زمین اور جنگلات متاثر نہ ہوں۔ یہ انداز ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ انسان اور قدرت کے درمیان توازن ضروری ہے، اور یہ توازن صدیوں سے ان خانقاہوں میں قائم ہے۔
سیاح اور زائر جب یہاں آتے ہیں، وہ صرف روحانی سکون یا تاریخی معلومات حاصل نہیں کرتے، بلکہ ماحول کی خوبصورتی کو بھی قریب سے محسوس کرتے ہیں۔ ان کے قدم، ہر جھاڑی، ہر پتہ اور ہر بادل کی سرسراہٹ سے جڑ جاتے ہیں۔ نوجوان نسل کے لیے یہ ایک طرح کی ماحولیاتی تربیت بھی ہے، جو انہیں زمین اور فطرت کے احترام کا درس دیتی ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ چین کی پہاڑی خانقاہیں صرف عبادت گاہ نہیں، بلکہ قدرتی خزانے ہیں۔ وہ انسان کو روحانی سکون، تاریخی آگاہی اور ماحولیاتی شعور تینوں ایک ساتھ فراہم کرتی ہیں۔ ان پہاڑوں کی خاموشی میں چھپی قدرت کی خوبصورتی، ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ زندگی کا اصل سکون انسان اور فطرت کے درمیان توازن میں ہے، اور یہی چین کی پہاڑی خانقاہوں کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں