پاک چین دوستی زمین سے خلا تک۔۔۔۔ارم زہرا(قسط 1)

‎صبح کا سورج بیجنگ کی عمارتوں کے پیچھے سے جھانک رہا تھا، مگر میرے اندر ایک اور ہی روشنی جاگ رہی تھی—جوش کی، بےچینی کی، اور ایک خواب کے حقیقت بننے کی۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی بار آسمان کی طرف دیکھا تھا، مگر آج آسمان میرے لیے محض نیلا گنبد نہیں، بلکہ ایک منزل تھا
‎ جہاں چاند کی چمک، ستاروں کی ٹمٹماتی روشنی، اور خلا کی بے انتہا وسعت میں ایک عجیب سی کشش نمایاں تھی، جیسے وہ مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہو۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں زمین سے زیادہ خلا کے قریب ہوں، جیسے اس روشنی میں کوئی راز چھپاہوا ہو، جو صرف ان لوگوں کو دکھائی دیتا ہو جو خلا میں نظر دوڑاتے ہیں۔”
‎میں نے زمین پر بےشمار سورج نکلتے اور ڈھلتے دیکھے تھے، مگر آج کا سورج کچھ مختلف تھا۔ آج میں اس جگہ جا رہی تھی جہاں زمین کا دائرہ ختم ہوتا ہے اور بےوزنی کی دنیا شروع ہوتی ہے—تیانگونگ، یعنی “آسمانی محل”۔
‎وہی مقام جہاں سے چین نے اپنی خلائی دنیا میں قدم رکھا، جہاں انسان بے وزنی کی کیفیت میں تیرتے ہیں، اور جہاں زمین کو نیلے گلوب کی طرح خلا میں معلق دیکھا جا سکتا ہے۔
‎میرے سامنے ایک دروازہ کھلنے والا تھا، ایک ایسا دروازہ جو مجھے ستاروں کے قریب لے جانے کا وعدہ کر رہا تھا۔
‎ہماری گاڑی شنگھائی-بیجنگ ہائی اسپیڈ ریل سے ہوتی ہوئی ایک جدید کمپلیکس کے سامنے رکی۔ جیسے ہی میں نے عمارت کی طرف نظر اٹھائی، ایک لمحے کو لگا کہ میں کسی سائنس فکشن فلم کے سیٹ پر آ گئی ہوں۔ اونچی چمچماتی عمارتیں، خودکار دروازے، اور روبوٹ اسسٹنٹس—یہ سب ایک الگ ہی دنیا لگ رہی تھی۔ میں نے گہری سانس لی اور اندر قدم رکھا۔
‎ہمارے گائیڈ، لیو ینگ، جو خود بھی ایک خلا باز رہ چکے تھے، انہوں نے مسکراتے ہوئے ہمیں خوش آمدید کہا۔”آپ پہلی بار تیانگونگ آئی ہیں؟” انہوں نے پوچھا۔”جی ہاں، اور شاید آخری بار بھی!” میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا، حالانکہ دل چاہ رہا تھا کہ یہ موقع بار بار ملے۔کیونکہ
‎یہ ایسی جگہ ہے جہاں تک رسائی صرف منتخب خلا بازوں، سائنسدانوں اور اعلیٰ سطح کے محققین کی ہوتی ہے۔ لیکن میری خوش قسمتی تھی کہ میں یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ وہ رپورٹر جو چین کی خلائی ترقی پر رپورٹنگ کر رہا تھا، اس نے میری دلچسپی اور تحقیق کو دیکھا اور مجھے اس دورے کا حصہ بننے کی اجازت دی ۔
‎تیانگونگ کے
‎اندر ایک وسیع ہال میں ایک بڑی اسکرین پر چین کے خلائی
مشنز کی جھلکیاں چل رہی تھیں۔
چانگ ای 6 کا چاند پر اترنا ، تیان وین 1 کا مریخ کی سرخ سطح پر تحقیق، اور خلائی اسٹیشن پر موجود چینی خلابازوں کی روزمرہ زندگی—یہ سب میرے سامنے کسی جادوئی کہانی کی طرح چل رہا تھا۔
“آپ کو معلوم ہے؟” لیوینگ مسکراتے ہوئے بولے، “یہی وہ جگہ ہے جہاں چین کے چاند اور مریخ مشنز کی منصوبہ بندی ہوئی، اور جہاں وہ خلاباز تربیت حاصل کرتے ہیں جو کبھی نہ کبھی خلا میں جائیں گے!”
میں نے حیرت سے اردگرد دیکھا۔ ایک بڑی اسکرین پر **چانگ ای 6** کے مناظر چل رہے تھے، جس نے چاند کے تاریک پہلو سے نمونے اکٹھے کیے تھے۔ ایک طرف ** تیان وین 1** کا ماڈل رکھا تھا، وہی مشن جس نے چین کو مریخ پر قدم رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
ہمارے سامنے ایک دیوار پر چین کے خلائی سفر کی تاریخ درج تھی۔ لیو ینگ نے ہمیں بتایا-
“چین کا یہ سفر 1970 میں شروع ہوا، جب پہلا مصنوعی سیارہ **Dong Fang Hong 1** خلا میں بھیجا گیا۔ تب کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ ملک ایک دن اپنا خلائی اسٹیشن بھی بنائے گا اور مریخ پر بھی پہنچے گا!”
میں نے سوچا، کتنا عجیب ہے کہ وہی قوم جو ہزاروں سال پہلے پتنگیں اڑانے میں مشہور تھی، آج راکٹ خلا میں بھیج رہی ہے۔ انسان کی ترقی بھی کیا حیرت انگیز چیز ہے!
دیوار کے دوسرے حصے میں ایک تصویر تھی۔ ایک شخص خلا میں معلق تھا، اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی، جیسے کسی اور ہی دنیا کا راز جان چکا ہو۔
“یہ ہیں **یانگ لی وی**، جو 2003 میں خلا میں جانے والے پہلے چینی خلا باز بنے!” لیو ینگ نے فخر سے کہا۔
میں نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں اور تصور کیا کہ وہ لمحہ کیسا ہوگا جب کوئی انسان زمین کی کشش سے آزاد ہو کر ستاروں کے درمیان تیرتا ہوگا
“یہاں دیکھیں، یہ ہے ہمارا **چانگ ای مشن**!” لیو ینگ نے ایک بڑے ماڈل کی طرف اشارہ کیا۔ “2007 میں چانگ ای 1 نے چاند کے گرد چکر لگایا، اور پھر 2013 میں چانگ ای 3 نے پہلی بار چاند کی سطح پر قدم رکھا۔”
میں نے اس ماڈل کو غور سے دیکھا۔ چاند کی ناہموار سطح، ایک چمکدار روور، اور پس منظر میں نیلا سیارہ زمین—یہ منظر مجھے کسی خواب جیسا لگا۔
“چانگ ای 4 نے تو تاریخ ہی رقم کر دی!” لیو ینگ پرجوش ہو گئے۔ “یہ دنیا کا پہلا مشن تھا جو چاند کے تاریک حصے پر اترا!”
میں نے حیرت سے پوچھا، “وہ کون سا حصہ ہے جو زمین سے کبھی نظر نہیں آتا؟”
“ہاں! چاند ہمیشہ زمین کے ایک ہی رخ کو دکھاتا ہے، دوسرا حصہ ہم کبھی دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اسی لیے چانگ ای 4 کو خاص سگنلز اور سیٹلائٹس کی مدد سے وہاں بھیجا گیا!”
یہ جان کر مجھے وہ تمام پرانی کہانیاں یاد آئیں جو ہم بچپن میں چاند پر رہنے والی پریوں کے بارے میں سنتے تھے۔ کون جانتا تھا کہ ایک دن ہم واقعی چاند پر جا کر وہاں کی مٹی کے نمونے اٹھا رہے ہوں گے!
ہال کے دوسرے کونے میں ایک سرخ ہولوگرام نظر آ رہا تھا۔ قریب گئی تو دیکھا کہ یہ مریخ کی سطح کا **3D ماڈل** تھا، بالکل ویسا جیسے میں نے کتابوں میں دیکھا تھا۔
“یہ ہمارا ** تیان وین 1** مشن ہے!” ایک نوجوان سائنسدان جوش سے بولا۔
“چین کا پہلا مریخ مشن؟” میں نے پوچھا۔
“جی ہاں! اور یہ نہ صرف مریخ کے مدار میں گیا بلکہ اس نے ایک **روور، ژورونگ** بھی اتارا!”
میں نے حیرت سے وہ منظر دیکھا۔ زمین سے لاکھوں میل دور، ایک چھوٹا سا روبوٹ مریخ کی سطح پر گھوم رہا تھا، وہاں کی مٹی اور پتھروں کا تجزیہ کر رہا تھا۔ کسے خبر، شاید ایک دن وہاں بھی بستیاں بس جائیں!
‎ہمارے گائیڈ، لیو ینگ، نے ہمیں بتایا کہ چین کی خلائی تحقیق میں تیانگونگ ایک سنگ میل ہے، اور یہ چین کی سائنسی ترقی کی کامیابی کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ جب میں نے اس اسٹیشن کے جدید ترین سسٹمز اور چمچماتی مشینوں کو دیکھا، تو مجھے احساس ہوا کہ یہ صرف ایک عمارت نہیں، بلکہ انسانی عزم کا مظہر ہے۔ ایک لمحے کے لیے، میں نے خود کو خلا میں اڑتے ہوئے محسوس کیا۔
‎جب ہم تیانگونگ کی خلائی اسٹیشن میں داخل ہوئے، تو ایک گہری خاموشی تھی، جیسے خلا میں حقیقت کی گونج ہو۔ میں نے گہری سانس لی، اور وہ عجیب سی فضا محسوس کی جس میں کششِ ثقل کا کوئی اثر نہیں تھا۔ دیواریں چمک رہی تھیں، اور ہر طرف ایک جدیدیت کا اثر تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں خوابوں کو حقیقت کا لباس ملتا تھا، اور میں نے محسوس کیا کہ میں خلا کی لامحدودیت میں ایک لمحے کے لیے غرق ہو چکی ہوں۔
‎چین کے خلائی اسٹیشن میں ہمارے ساتھ تجربے کے لیے کچھ خلاباز بھی تھے۔ ان میں سے ایک، لیو ژی، جو پہلے ہی کئی خلائی مشن میں شامل ہو چکے تھے، ہمیں بتا رہے تھے کہ خلا میں جانے کا سب سے حیرت انگیز تجربہ کیا ہوتا ہے۔”خلاء میں جب آپ وزن کی کمی کا تجربہ کرتے ہیں، تو وہ لمحہ کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے آپ پر سے زمین کا ہر بوجھ اُتر جائے۔ نیچے سے آپ جب اپنی انگلیاں اُٹھاتے ہیں، تو وہ فضا میں معلق رہ جاتی ہیں۔ اس لمحے میں آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ زمین کے بوجھ سے آزاد ہو گئے ہیں۔”لیو ژی کی آنکھوں میں ایک ایسی چمک تھی، جیسے وہ ان لمحوں کو دوبارہ جیتے ہوں، اور میں نے اس بات کو دل سے محسوس کیا۔چین کے خلائی اسٹیشن میں کھانا کھانے کا اپنا ایک الگ طریقہ تھا۔ خلا میں رہتے ہوئے، کھانے کا تجربہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ کھانے کی ہر چیز پیکٹ میں بند ہوتی ہے، اور یہ پیکٹ خلا میں کھولے جاتے ہیں، تاکہ کھانا ہوا میں نہ بکھر جائے۔ میں نے کھانے کی میز پر ایک چھوٹا سا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔”اسے آپ ‘خلا کا کھانا’ بھی کہہ سکتے ہیں!” لیو ژی نے مسکراتے ہوئے کہا۔میں نے پیکٹ کھولا، اور جیسے ہی کھانا باہر نکالا، وہ ہوا میں معلق ہو گیا، جیسے کسی جادوئی حرکت سے۔ وہ منظر میرے ذہن میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔سب سے دلچسپ تجربہ وہ لمحہ تھا جب ہم نے خلا سے زمین کو دیکھنے کا
‎موقع پایا۔ تیانگونگ کے خلائی اسٹیشن کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں، اور باہر نیلا سیارہ زمین نظر آ رہا تھا۔ نیچے سمندر، سرسبز میدان، اور وہ چھوٹے چھوٹے جزیرے، جنہیں میں نے ہمیشہ زمین سے دیکھا تھا، اب خلا سے ایک چمکتے ہوئے نیلے گلوب کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔”یہ وہ منظر ہے جو انسان کے خوابوں میں ہوتا ہے، اور اب میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔” میں نے لیو ژی سے کہا۔ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، جیسے وہ جانتے ہوں کہ خلا میں رہتے ہوئے ایک لمحہ ایسا ہوتا ہے جو ہمیشہ کے لیے انسان کو بدل دیتا ہے۔”یہ منظر صرف سائنسی نہیں، بلکہ فلسفے کا حصہ ہے۔ جب آپ خلا سے زمین کو دیکھتے ہیں، تو آپ کو انسانیت کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے—ہم سب ایک ہی سیارے پر ہیں، اور ہمیں اس کی حفاظت کرنا ہے۔”
چاند کا چمکتا ہوا چہرہ ہمیشہ سے ہی انسانی تجسس کا مرکز رہا ہے، اس کی نرم روشنی میں وہ تمام سوالات چھپے ہوئے ہیں جن کا جواب اب تک ہمیں نہیں مل سکا۔ لیکن چاند کا ایک اور پہلو بھی تھا، وہ جو کبھی زمین سے نظر نہیں آتا تھا، جیسے ایک راز جو صرف آسمان کے اس حصے میں دفن ہو۔ اور پھر ایک دن، چین نے اس راز کو آشکار کرنے کا ارادہ کیا۔
چاند کے تاریک پہلو کو تسخیر کرنے کے لئے “چانگ ای 6″ کا مشن روانہ ہوا۔ یہ مشن محض ایک خلائی تحقیق نہیں تھی، بلکہ انسانیت کے خوابوں کی پرواز تھی، جس میں ایک نیا قدم تھا۔ جیسے کسی پرانے افسانے کا آغاز ہوتا ہے، ویسا ہی کچھ اس سفر میں تھا، جو نہ صرف چین کی سائنسی ترقی کی علامت بننے والا تھا، بلکہ پوری دنیا کو یہ دکھانے جا رہا تھا کہ انسانوں کا تجسس آسمانوں تک پھیل چکا ہے۔
وہ لمحہ یادگار تھا جب چانگ ای 6 نے چاند کی سرحدوں کو چھوا۔ چاند کی سطح پر اس کا رشتہ ہر ایک نے محسوس کیا۔ وہاں پر ہلکی سی خاموشی تھی، جیسے چاند خود بھی اپنی حقیقت کی تلاش میں تھا۔ خلا میں جاکر جب اس نے چاند کے تاریک پہلو کو اپنی گرفت میں لیا، تو یہ اس عظیم سفر کا آغاز تھا جس میں صرف سائنسی تحقیقات نہیں، بلکہ انسان کے اندر ایک نئی آگ، ایک نئی امید جاگ رہی تھی۔
چاند کے تاریک پہلو کی تسخیر کی کہانی ایک ایسی داستان بن چکی تھی، جو آسمانوں کی سرحدوں کو پار کر کے زمین پر گونج رہی تھی۔
میں نے خلا میں کسی غیر مری نقطے کو کھوجتے ہوئے سوچا ۔
‎”یہ ہے چین کا سب سے نیا قمری مشن، چانگ ای 6!” لیو ینگ نے اسکرین پر اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
‎میں چونک کر لیوینگ کی جانب متوجہ ہوئ ۔میں نے غور سے دیکھا۔ اسکرین پر ایک چاند گاڑی چاند کی ناہموار سطح پر چل رہی تھی، اور پس منظر میں نیلا سیارہ زمین دمک رہا تھا۔”چانگ ای 6 وہ واحد مشن ہے جو چاند کے تاریک پہلو تک پہنچا اور وہاں سے مٹی اور چٹانوں کے نمونے واپس لایا۔” لیو ینگ کی آواز میں فخر جھلک رہا تھا۔
‎میرے ذہن میں ایک سوال آیا۔ “لیکن چاند کے تاریک پہلو میں کیا خاص بات ہے؟”انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، “وہ حصہ زمین سے ہمیشہ پوشیدہ رہتا ہے۔ یہاں کے نمونے ہمیں چاند کے آغاز اور نظامِ شمسی کی تاریخ کے بارے میں نئی معلومات دے سکتے ہیں۔”
‎مجھے وہ لمحہ یاد آیا جب میں نے خبر پڑھی تھی کہ چانگ ای 6 کے ساتھ پاکستان کا پہلا چاندی سیٹلائٹ آئی کیوب قمر بھی بھیجا گیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے دل میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
‎”شاید وہ دن اب زیادہ دور نہیں، جب پاکستان بھی اپنا پہلا خلائی مشن چاند کی جانب روانہ کرے گا۔”
‎چاند کے تاریک حصے کی طرف سفر ایک جرات مندانہ مشن تھا، اور جب لیو ینگ نے ہمیں بتایا کہ چاند کے اس حصے میں ابھی تک کسی انسان کے قدم نہیں پہنچے، تو مجھے ایک عجیب سی پر اسرار کیفیت محسوس ہوئی۔ اس مشن کی کامیابی نے چین کو خلا کے میدان میں ایک نیا مقام دیا، اور یہ پاکستان کے ساتھ مل کر خلائی تحقیق میں عالمی تعاون کا بھی نشان تھا۔
‎”آپ کو معلوم ہے؟” لیو ینگ نے مسکراتے ہوئے کہا، “چاند کی تاریک سطح پر جانے کا مطلب صرف سائنس کا حصول نہیں، بلکہ انسان کے خلا میں قدم جمانے کی جرات کا اظہار بھی ہے۔
“میں نے لیو ینگ کی بات سنی اور ایک لمحے کے لیے توقف کیا۔ پھر میں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ‘بالکل، یہ صرف سائنسی تحقیق نہیں، بلکہ انسان کے حوصلے اور لگن کا اظہار ہے۔ چاند کی تاریک سطح پر قدم رکھنا، جیسے انسان نے نہ صرف خلا کی وسعتوں کو تسخیر کیا ہو، بلکہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیا ہو۔’
مزید آگے بڑھتی ہوں تو ہال کے دوسرے کونے میں ایک سرخ ہولوگرام چمک رہا تھا۔ جیسے وہ مریخ کا سرخ خواب ہو ۔ میں جب اس کے قریب پہنچی، میں نے دیکھا کہ یہ مریخ کی سطح کا تین جہتی ماڈل تھا، بالکل ویسا ہی جیسے میں نے کتابوں اور تصویروں میں دیکھا تھا۔
‎یہ چین کا پہلا مریخ مشن، تیان وین 1 ہے! ایک نوجوان سائنسدان نے جوش سے کہا۔میں نے حیرت سے اس ماڈل کو دیکھا۔ “چین کے لیے یہ مشن کتنا اہم تھا؟” میں نے پوچھا۔”بہت زیادہ! تیان وین 1 نہ صرف مریخ کے مدار میں پہنچا، بلکہ اس نے کامیابی سے وہاں ایک روور بھی اتارا جو اب بھی مریخ کی سطح کا تجزیہ کر رہا ہے۔”
‎میں نے تصور کیا کہ زمین سے لاکھوں میل دور، سرخ مٹی کے درمیان ایک چینی روبوٹ گھوم رہا ہے، نئے راز تلاش کر رہا ہے۔
‎یہ مشن چین کے لیے محض ایک سائنسی کامیابی نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے نئی راہیں کھولنے کی کوشش بھی تھا۔
‎”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں