ٹیرف کیا ہے امریکانے یہ اقدام کیوں اٹھایا؟…. حمیرا گل تشنہ

ٹیرف کیا ہے؟ ٹیرف درحقیقت ایک قسم کا محصول یا ٹیکس ہے جو کسی ملک کی حکومت بیرون ممالک سے درآمد ہونے والی اشیا پر عائد کرتی ہے۔ یہ محصولات درآمد کنندہ کمپنیوں کو ادا کرنا ہوتے ہیں جو پھر عام طور پر صارفین تک منتقل ہو جاتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 اپریل 2025 کو ایک تاریخی اعلان کرتے ہوئے تقریباً 100 ممالک پر نئے ٹیرفز عائد کرنے کا فیصلہ کیا، جسے انہوں نے “یوم آزادی” قرار دیا۔ اس پالیسی کے تحت تمام ممالک پر کم از کم 10 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا جبکہ کچھ ممالک پر یہ شرح بہت زیادہ بھی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکی معیشت کی بحالی اور تجارتی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے ضروری تھا۔ امریکاکا دعویٰ ہے کہ یہ ٹیرفز “باہمی” (reciprocal) ہیں۔ یعنی جو شرح دیگر ممالک امریکی مصنوعات پر عائد کرتے ہیں، امریکا بھی تقریباً اسی حساب سے ان ممالک کی مصنوعات پر ٹیرفز لگا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف اس بنیاد پر عائد کیا گیا ہے کہ پاکستان خود امریکی مصنوعات پر 58 فیصد ٹیرف عائد کرتا ہے۔

عالمی معیشت پر ٹیرف کے اثرات ایک ایٹم بم کے برابر ہے۔ امریکی ٹیرفز کے اعلان نے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ماہر اقتصادیات کین روگوف نے اسے “عالمی تجارتی نظام پر ایٹم بم گرانے جیسا عمل” قرار دیا ہے۔ یہ اقدام درحقیقت 1930 کی دہائی کے بعد سے عالمی تجارت پر عائد ہونے والے سب سے بڑے محصولاتی اقدامات میں سے ایک ہے۔
ٹیرف کے منفی اثرات:
1) کساد بازاری کا خدشہ: فچ ریٹنگ ایجنسی میں امریکی اقتصادی تحقیق کے سربراہ اولو سونالو نے خبردار کیا ہے کہ اس عمل سے بہت سے ممالک کساد بازاری کا شکار ہو سکتے ہیں۔

2) مارکیٹس میں مندی: ایشیا کی مختلف مارکیٹس میں اعلان کے فوراً بعد مندی کا رجحان دیکھا گیا۔

3) گلوبل جی ڈی پی میں کمی: جے پی مورگن ریسرچ کے مطابق، یہ اقدام امریکی جی ڈی پی میں 0.2 فیصد کی کمی کا باعث بن سکتا ہے، جبکہ عالمی جی ڈی پی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

4) مہنگائی میں اضافہ: یہ ٹیرفز امریکا میں مہنگائی کو بڑھا سکتے ہیں، جس سے فیڈرل ریزرو کے لیے شرح سود کے فیصلے مشکل ہو جائیں گے۔

5) تجارتی جنگ کا خطرہ: یورپی یونین کی ایگزیکٹو ہیڈ ارسولا وان ڈیر لیین نے اسے “عالمی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا” قرار دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس سے تحفظ پسندی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

مثبت پہلو (امریکی نقطہ نظر):

1) مقامی صنعت کی حمایت: ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام امریکی صنعت کاروں کی مدد کرے گا، خاص طور پر ان کمپنیوں کو جو اپنی مصنوعات امریکامیں ہی تیار کرتی ہیں۔

2) تجارتی عدم توازن میں کمی: امریکا کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ ٹیرفز طویل مدتی میں تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

پاکستان پر ٹیرف کے اثرات: چیلنجز اور مواقع

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن پر امریکہ نے نسبتاً زیادہ ٹیرف (29 فیصد) عائد کیا ہے۔ یہ شرح چین (34 فیصد)، ویت نام (46 فیصد) یا بنگلہ دیش (37 فیصد) سے کم ہے، لیکن بھارت (26 فیصد) سے زیادہ ہے۔

پاکستان پر فوری ہونے والے منفی اثرات:

1) برآمدات پر دباؤ: امریکا پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ ہے، جہاں پاکستان سالانہ تقریباً 6 ارب ڈالر مال برآمد کرتا ہے جو ملک کی کل برآمدات کا 18 فیصد ہے۔

2) ٹیکسٹائل صنعت کو شدید دھچکا: پاکستان کی کل برآمدات کا 75- 80 فیصد ٹیکسٹائل پر مشتمل ہے، اور اس ٹیرف سے یہ شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔

3) صارفین کو مہنگائی کا سامنا: چونکہ پاکستانی درآمد کنندگان کو ٹیرف ادا کرنا ہو گا، اس لیے ممکن ہے کہ یہ اضافی لاگت صارفین تک منتقل ہو جائے۔

4) امریکی سرمایہ کاری میں کمی کا خدشہ: یہ اقدام پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری کے رجحان پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

طویل مدتی مواقع:

1) متبادل مارکیٹس کی تلاش: ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چین، یورپی یونین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔

2) مصنوعات میں تنوع: یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان ٹیکسٹائل سے ہٹ کر دیگر شعبوں میں بھی برآمدات بڑھائے۔

3) مقامی صنعت کی ترقی: زیادہ ٹیرفز کے باعث پاکستانی مصنوعات کو مقامی مارکیٹ میں فائدہ ہو سکتا ہے۔

4) علاقائی تجارت: پاکستان کے لیے خطے کے دیگر ممالک، خاص طور پر وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت بڑھانے کا موقع موجود ہے۔

پاکستان کے مختلف شعبوں پر اثرات
ٹیکسٹائل صنعت:
پاکستانی ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کے لیے صورتحال کچھ پیچیدہ ہے۔ ایک طرف تو انہیں 29 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے، لیکن دوسری جانب پاکستان کے مقابل ممالک جیسے بنگلہ دیش (37 فیصد) اور ویت نام (46 فیصد) پر اس سے بھی زیادہ ٹیرفز عائد کیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ پاکستانی مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی، لیکن کچھ حریف ممالک کی مصنوعات اور بھی مہنگی ہو جائیں گی۔

زراعت:
پاکستان کی زرعی برآمدات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، خاص طور پر چاول اور کپاس کی برآمدات پر۔

جوہری اور دفاعی شعبہ:
حال ہی میں امریکانے پاکستان کی 19 کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں جو جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک ہونے کے الزام میں ہیں۔ یہ پابندیاں ٹیرفز سے الگ ہیں، لیکن یہ دونوں اقدامات مل کر پاکستان اور امریکاکے درمیان تجارتی تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

پاکستانی حکومت اور صنعت کا ردعمل:
پاکستانی حکومت نے اب تک اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے، لیکن ماہرین اقتصادیات مختلف ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں:

1) معاشی ماہر علی حسنین (LUMS) کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکا پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار ہے، لیکن امریکا کو برآمدات پاکستان کے جی ڈی پی کا صرف 1.5 فیصد ہیں، اس لیے مجموعی معیشت پر اثر محدود ہو گا۔

2) ساجد امین (SDPI) کے مطابق فوری اثرات منفی ہوں گے اور پاکستان کو مقامی پیداوار کو سبسڈی دینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

3) عدیل نخودہ (IBA) کا خیال ہے کہ پاکستان کو یورپی یونین اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں۔

مستقبل کے امکانات اور سفارشات
امریکی ٹیرفز کے طویل مدتی اثرات کا انحصار متعدد عوامل پر ہو گا:

1) ٹیرفز کی مدت: کیا یہ عارضی ہوں گے یا طویل مدتی پالیسی کا حصہ بن جائیں گے؟

2) بین الاقوامی ردعمل: دیگر ممالک کیسا ردعمل دیتے ہیں، خاص طور پر یورپی یونین اور چین؟

3) پاکستانی صنعت کی لچک: پاکستانی برآمد کنندگان کس حد تک اس تبدیلی کے ساتھ ایڈجسٹ کر پاتے ہیں۔

سفارشات پاکستان کے لیے:

1) برآمدات میں تنوع: صرف ٹیکسٹائل پر انحصار کم کرتے ہوئے دیگر شعبوں میں برآمدات بڑھائی جائیں۔

2) مارکیٹس کی متنوع سازی: امریکااور یورپی یونین کے علاوہ دیگر مارکیٹس تلاش کی جائیں۔

3) مصنوعات کے معیار بہتری: اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کر کے ٹیرف کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

4) دولت مشترکہ مارکیٹس پر توجہ: پاکستان کو دولت مشترکہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں۔

5) علاقائی تجارتی معاہدے: خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدے کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹیرفز کا اعلان عالمی تجارتی نظام میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگرچہ امریکاکا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام اس کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا، لیکن زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے نتیجے میں عالمی تجارت سکڑے گی، مہنگائی بڑھے گی اور معاشی نمو متاثر ہو گی۔

پاکستان کے لیے یہ ایک چیلنجنگ صورتحال ہے، لیکن ساتھ ہی یہ موقع بھی ہے کہ وہ اپنی برآمدی پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لے اور معیشت میں تنوع پیدا کرے۔ پاکستان کو اپنی مصنوعات کی قیمت اور معیار دونوں پر کام کرنا ہو گا تاکہ وہ عالمی منڈی میں اپنا مقام برقرار رکھ سکے۔

حتمی تجزیہ یہ ہے کہ جب تک امریکااور دیگر ممالک کے درمیان تجارتی تناؤ کم نہیں ہوتا، عالمی معیشت غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار رہے گی، اور ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان کو اس کے اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ صنعت کاروں کے ساتھ مل کر جلد ایک جامع حکمت عملی تیار کرے تاکہ اس بحران کو موقع میں بدلا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں