والدہ سے بچھڑنے کاصدمہ شدید ہے مگر کراچی والوں کے پیار نے حوصلہ دیا.حمیرا گل تشنہ

سچ کہوں تو والدہ “ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ” کے انتقال کے بعد یہ وقت میرے لیے شدید غم اور دکھ کا تھا۔ ایسا لگتا تھا اب پاکستان آنے کی کوئی وجہ نہیں رہی۔ لیکن یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کو صبر و استقامت کا دامن تھامنے اور دوراندیشی کا ثبوت دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ایسی صورت میں جب میں عمرہ کے بعد کراچی پہنچی جس طرح سے گھر والوں نے ساتھ دیا اور اردو ادب کی دنیا کے لوگوں نے جو محبت دی اس نے والدہ کے دکھ کو کم کرنے میں قابل تحسین کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ صرف میری والدہ نہیں تھیں۔ ایک سہیلی تھیں، استاد تھیں، رہنما تھیں، ایک مرشد تھیں اور ایک سہارا تھیں جس کے چلے جانے کا صدمہ بے حد تھا، ہے اور رہے گا۔ ایسے حالات میں عام طور پر انسان خود کو سماجی تعلقات سے کاٹ کر تنہائی میں گم کر لیتا ہے مگر میں ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ بڑی بیٹی ہونے کے ناطے کچھ ذمہ داریاں ایسی ہوتی ہیں جن کو صرف آپ ہی کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسلتے ہوئے رشتوں کو سمیٹنا ہوتا ہے۔
یہ وقت شکوے اور شکایت کا نہیں بلکہ، صبر کی اور ہمت کی جو تربیت والدہ دے کر گئیں ہیں اب اس کو سب کو پریکٹیکلی اپلائی کرنے کا وقت ہے۔ اور والدہ کی یہ وراثت صرف جذباتی وابستگی تک محدود نہیں رہی، بلکہ ان کی ادبی و ثقافتی خدمات کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری بھی اب میرے کندھوں پر آ گئی ہے۔
کراچی، پاکستان کا ثقافتی و ادبی حب ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کا ایک اہم مرکز بھی ہے۔ اس بار میرا اس شہر کا دورہ محض ایک رسمی Visit نہیں تھا، بلکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ لگتا ہے۔ اس بار کے visit میں اردو ادب کے نامور ادیبوں، شاعروں اور ثقافتی شخصیات سے ملاقاتیں رہیں ۔ ان ملاقاتوں کا مقصد محض تعارف یا رسمی بات چیت تک محدود نہیں تھا، بلکہ اردو ادب کی ترویج مرکوز تھی ۔
جہاں ایک طرف اس دوڑتے بھاگتے وقت میں گھر و خاندان کو سمیٹنے کوشش جاری رہی وہیں دوسری طرف کراچی کے ادبی حلقوں میں شرکت کے ساتھ ساتھ کچھ بہترین لوگوں سے ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
ترقی شعراء ویلفیئر آرگنائزیشن نے والدہ کے حوالے سے تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا۔ گورنر ہاؤس جشن آزادی معرکہ حق مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا ۔ آرٹس کونسل کراچی گل رنگ ہال معرکہ حق مشاعرے میں والدہ کے لیے خصوصی دعا کا اہتمام کیا گیا۔ نشید آفاقی کی دعوت پر کنزیومرواچ واچ کے آفس visit کرنے کا موقع ملا جہاں کنزیومرواچ کے چیف ایڈیٹر شیخ راشد عالم سے ملاقات ہوئی۔ روٹری جشن آزادی مشاعرہ میں شرکت رہی ۔ اور اس کے علاوہ بالکل اچانک ہی بزم اعظم گڑھ شارجہ مشاعرے کی دعوت پر شارجہ و دبئی کے مشاعرے میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ احمد شاہ سے ملاقات کا موقع ملا ۔ کراچی پریس کلب میں فاضل جمیلی، خانزادہ، وجیہہ ثانی اور اصغر خان صاحب سے ملاقات و گفتگو رہی۔ ایف پی سی سی آئی کے زیر اہتمام مشاعرہ میں شامل ہوئی۔ ایف ایم 107 پر یحیٰ حسینی کے بہترین گفتگو رہی۔ اور واپس آنے سے قبل ترقی شعراء ویلفیئر آرگنائزیشن کی جانب سے کروز مشاعرہ و محفل غزل نے واپسی کے سفر پہلے کی ساری تھکان اتار دی۔ واپسی کے سفر سے چند گھنٹے قبل نہایت عجلت میں منصور ساحر نے venus tv پر اپنے مورنگ شو کی ریکارڈنگ کی اور اس کا حصہ بنی۔ اتنی ساری محبتیں سمیٹنے کے بعد کراچی کا یہ دورہ مکمل ہوا۔
زندگی اسی کا نام ہے جہاں لوگ بچھڑتے اور ملتے رہتے ہیں۔ آج کے دور میں جب ادبی دنیا بھی گروہ بندیوں، تنقید کے نام پر تخریب کاری، اور منفی تنقید کا شکار ہو چکی ہے، ایسے صورتحال میں اچھے لوگوں کا آپ سے ملنا اور مثبت تعلقات استوار ہونا آپ کے اندر ایک نیا عزم، ایک نئی امید کی کرن پیدا کرتے ہیں۔
میرے لیے والدہ کی رحلت کے بعد کراچی کا دورہ بےحد مشکل کام تھا۔ جس کے لیے آتی تھی وہ وجہ ختم ہوگئی تھی لیکن کچھ ضروریات ایسےلی ہوتی ہیں کہ ان سے منہ نہیں پھیرا جا سکتا۔ لیکن میرے گھر والوں کی محبت و ساتھ نے اس مشکل کام کو آسان کرنے میں مدد کی۔ اور اردو ادب کی دنیا کے لوگوں سے ملنے والا پیار اس بات کی علامت ہے کہ ادب محض الفاظ کا ہنر نہیں، بلکہ دلوں کو جوڑنے کا وسیلہ بھی ہے۔ اور یہی وہ legacy ہے جو کہ والدہ “ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ” میرے لیے چھوڑ گئی ہیں۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جو بےحد تکلیف دیتی ہے کہ وہ “چھوڑ گئی ہیں”۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں