سرکار کے شدید دبائو پر بھی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہ بنا،…..آغا سراج درانی

کراچی (آغاخالد)
آغا سراج درانی بھی داغ مفارقت دے گئے
اناللہ واناالیہ راجعون
وہ سندھ کا ایک بھاری بھرکم نام تھے اور ان کے بڑوں نے قیام پاکستان میں قائد اعظم کی مدد کی تھی، گڑھی یاسین کے شاہی خانوادہ سے تعلق رکھنے والے آغا سراج سندھ کے چند کروڑ پتی خاندانوں میں سے تھے مگر سیاست میں آنے کے بعد مملکت کے طاقت ور اداروں نے ان کے ساتھ بھی ایک سے زائد بار وہی گھناؤنا سلوک کیا جس کا مقصد سیاستدانوں کی کردار کشی اور ان کی رسوائی ہوتا تھا کبھی ان کے گھر یا دفتر سے کروڑوں روپیہ برآمد کروایا جاتا کبھی گڑھی یاسین کے محل کے صحن سے خزانہ برآمد ہوتا مگر ان کے خلاف بنائے گئے بیسیوں مقدمات کے عدالتی چالان میں وہ خزانے کبھی ظاہر نہ کیے جا سکے تبھی کہتے ہیں “جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے”
آغا سراج درانی دوستوں کے دوست مشہور تھے جبکہ ان کی اصل وجہ شہرت صدر مملکت آصف زرداری سے ان کی بچپن کی دوستی تھی وہ ذولفقار مرزا کی طرح میٹرک سے زرداری کے کلاس فیلو بھی رہے اور بہت سے دوستوں کے بقول ان کی موت کی بڑی وجہ زرداری صاحب کا گزشتہ کئی برسوں سے ان کے ساتھ سرد رویہ بھی تھا جس کا انہیں صدمہ تھا اور وہ اپنے قریبی دوستوں سے ہلکے پھلکے انداز میں اس پر شکوہ بھی کرتے تھے کہا جاتا ہے کہ اسی رویہ کے سبب وہ گزشتہ 10 برس سے کابینہ سے باہر رہے جبکہ انہیں یہ بھی شبہ تھا کہ طاقت ور عہدوں سے محروم رکھنے کی خاطر ہی انہی پانچ سال سندھ اسمبلی کا اسپیکر رکھا گیا وہ بلا کے ذہین قابل شریف النفس اور پی پی کے وفادار رہنما تھے ان کے قریبی اعزہ کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے سیاست سے الرجک تھے اعلی تعلیم کے لیے امریکہ گئے تو پھر وہیں کے ہو رہے اور اپنے شوق کی تکمیل میں انہوں نے امریکہ میں ماڈلنگ بھی کی اور کچھ دیگر ڈراموں میں بھی چھوٹے موٹے رول کیے جس پر وہ گوریوں کے پسندیدہ اداکار مشہور ہوے وہ دراز قد کے ساتھ کسرتی جسم، پر کشش نقوش، گھنگریالے بال، بڑی آنکھیں، نکھری رنگت اور نوکیلی رعب دار موچھوں کے ساتھ مردانہ وجاہت کا شاندار شاہکار تھے اس لیے امریکہ کے گوروں میں تیزی سے مقبول ہورہے تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو 87/88 میں امریکہ گئیں تو انہوں نے اصرار کرکے انہیں واپس آنے اور سندھ کی سیاست میں کردار ادا کرنے پر آمادہ کرلیا کہا جاتا ہے کہ ایسا بھی محترمہ نے اپنے شوہر آصف زرداری کی سفارش پر کیا تھا وہ اکثر بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ جس روز میری فلائٹ کراچی میں اتری اسی روز جنرل ضیا کا جہاز بہاول پور میں حادثہ کا شکار ہوا تھا ان کے والد آغا صدرالدین درانی سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے جبکہ چچا آغا بدرالدین قیام پاکستان کے وقت سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر تھے اور پاکستان سے الحاق کی سائیں جی ایم سید کی قرار داد میں پیش پیش تھے ان کا خاندان 3 صدیاں قبل افغانستان سے برصغیر آیا اور پھر محلہ آوروں کے ساتھ واپس جانے کی بجائے سندھ میں ہی ٹھر گیا اور شکار پور اور جیکب آباد کے درمیان ایک چھوٹے سے مگر ترقی یافتہ قصبے گڑھی یاسین کو اپنا مسکن بنا لیا ایک قلعہ نما چہار دیواری بناکر پورا کنبہ اس میں رہائش پذیر ہوا یہ اصلی پٹھان اور لڑاکا قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اس مشکل علاقہ میں بھی جلد ہی ان کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ علاقہ کے بڑے زمیندار گھرانہ کی حیثیت سے مشہور ہوگئے مشکل علاقہ اس لیے کہاکہ شکار پور سے جیکب آباد تک زیادہ تر جنگجو لڑاکا بلوچ قبائل آباد ہیں 20 ویں صدی تک سرداروں کی سطح پر ان میں رشتہ داریاں بن رہی ہوتی تھیں مگر عین اسی لمحے نچلی سطح پر خونریز جھگڑے چل رہے ہوتے تھے جس میں ہر ایک جھگڑے میں 8/10 بندوں کا مرجانا تو معمولی بات تھی ایسے علاقہ میں دھاک کے ساتھ رہنا بذات خود بڑا کارنامہ تھا پھر درانی قبیلہ جنگجو اور لڑاکا بھی مشہور ہوگئے اور غیر اعلانیہ (معاشی اور ذہنی) سلطنت بھی قائم کرلی ہوا یوں کہ پھر علاقہ کی بڑے زمینداری کے علاوہ ان کی نئی نسل اعلی تعلیم کی طرف راغب ہوگئی جبکہ اس علاقہ کے طاقت ور بلوچ قبائل کے صرف سرداروں کے سکا د حلکا بچے ہی تعلیم حاصل کرتے تھے اور قبیلہ جہالت میں ڈوبا رہتا تھا مگر درانی بحیثیت قبیلہ اعلی تعلیم حاصل کرکے حکومتوں میں اہم مناصب حاصل کرتے رہے جس سے یہ مہذب بھی ہوگئے اور علاقہ میں ان کا اثرو رسوخ بھی بڑھتا گیا اس درانی قبیلہ کی 21 ویں صدی کے فرزند آغا سراج درانی ہونہار ہونے کے ساتھ اثرو رسوخ اور صوبہ سندھ کی سیاست میں منفرد مقام حاصل کرگئے ان کی ملن سار فقیرانہ عادات نے انہیں شکار پور سے نکال کر پورے سندھ کی مقبول شخصیت بنادیا وہ جب بھی سندھ کابینہ میں وزیر بنتے ان کی کھلی کچہریاں عام اور مظلوم لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتیں ان کے دفتر میں کبھی پروٹوکول نہیں دیکھا ہر شخص ہر وقت ان سے مل سکتا تھا پھر وہ غریبوں کے مسائل حل کرنے میں نہ صرف دل چسپی لیتے تھے بلکہ اپنی جیب سے بھی ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے جس سے ان کی شہرت اور عزت میں اضافہ ہوا اور وہ صوبہ کی مقبول ترین شخصیات کی صف اول میں آگئے یہی وجہ تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بننے والی حکومت میں وہ سندھ کی وزارت اعلی کے لیے زرداری صاحب کے پسندیدہ امیدوار بن گئے تھے یہ بھی بڑا دل چسپ قصہ ہے چہ جائیکہ آصف زرداری پارٹی کی بظاہر کمان سنبھال چکے تھے مگر پارٹی کی سینیر قیادت انہیں قبول کرنے کو ذہنی طور پر تیار نہ تھی اور اندرون خانہ سنجیدہ چپقلش موجود تھی پھر بی بی کے سوئم میں دکھائے گئے جانشینی کے خط کی ایک جھلک پر بھی مخدوم امین فہیم اور خورشید شاہ جیسے سینیر رہنما بھی اعتبار کرنے کو تیار نہ تھے انہوں نے سوئم کے جذباتی ماحول میں اعتراض تو نہ کیا مگر ان کے چہرہ کے تاثرات اور بعد کے رویہ نے زرداری صاحب کو پریشان کردیا، جبکہ ان ہی سینیرز کو بی بی کی قربت کی وجہ سے معلوم تھا کہ محترمہ بے نظیر پرویز مشرف کے دور میں ملک بدری کے دوران اور وطن واپسی پر بھی ماضی کے تجربات کے باعث آصف زرداری کی پارٹی یا سیاست میں مداخلت کے خلاف تھیں اور اس مسلہ پر میاں بیوی کے تعلقات میں بی بی کی شہادت تک سرد مہری بھی پائی جاتی رہی جس کی وجہ سے آصف زرداری پارٹی کی کمان سنبھالنے کے باوجود اپنے آپ کو بہت کمزور محسوس کرہے تھے اور بعض سیاسی مبصرین کے بقول یہی وجہ تھی کہ ملکی طاقت ور اسٹبلشمنٹ کی ہمدردیاں سمیٹنے اور طاقت کے ایک بڑے مرکز کو اپنے ساتھ ملانے کو ذہین ترین آصف نے ترپ کا شاندار پتہ کھیلتے ہوے سوئم کے سوگ اور پاکستان مخالف غصہ سے بھرے جذباتی اجتماع میں بھی “پاکستان کھپے” کا نعرہ لگایا جو بعد میں ان کے بہت کام آیا، سینیر پارٹی قیادت جانتی ہے کہ سوئم کے فورن بعد آصف علی زرداری سکھر پہنچے اور انہوں نے سکھر ہائوس میں اسلام الدین شیخ کے ہاں دو روز قیام کرکے سید خورشید شاہ کو رام کیا اس کارنامے کا زیادہ سہرا اسلام الدین شیخ کو جاتا ہے جس کا ثمر پہلے وہ اور اب ان کے بیٹے سمیٹ رہے ہیں یہ معرکہ سر کرنے کے بعد زرداری صاحب نے مخدوم امین فہیم پر کام شروع کیا مگر وہ زرداری کی کمزوری سے کھیلتے ہوے وزارت عظمی سے کم پر بات کرنے کو تیار نہ تھے اور آصف انہیں نظر انداز یوں نہ کرسکتے تھے کہ ان کے ساتھ سندھ کے ارکان اسمبلی اور پارٹی کی اہم قیادت یک زبان تھی یہی وجہ تھی کہ بقول مخدوم جاوید ہاشمی کے نواز شریف کی قیادت میں محترمہ بے نظیر کی تعزیت کے لیے نوڈیرو لاڑکانہ جانے والے ن لیگ کے تین رکنی وفد سے زرداری صاحب نے درخواست کی کہ وہ مخدوم امین سے ان کی جان چھڑائیں بقول جاوید ہاشمی کے وہاں تعزیت کا سوگوار ماحول تھا ہی نہیں بلکہ اقتدار کی بندر بانٹ کے لیے توڑ جوڑ زوروں پر تھا، بعد ازاں انتخابات کے بعد ہی زرداری صاحب کی فرمائش پر خواجہ آصف نے اسلام آباد پہنچ کر یہ بیان داغ دیاکہ اگر پی پی نے مخدوم امین فہیم کو وزارت عظمی کے لیے نام زد کیا تو ن لیگ ان کی حمایت نہیں کرے گی یوں زرداری صاحب نے ترپ کا ایک پتہ اور کھیل کر وزارت عظمی کے سب سے مضبوط امیدوار کو متنازعہ کرکے مخدوم امین کو پارٹی میں بے اثر کردیا، ملکی سیاست کا انتہائی نفیس اور شریف النفس سیاستداں سب سے بڑی کرسی کی بازی ہارگیا اور باقی زندگی آصف زرداری کی ناراض گی کا نشانہ بنتے ہوے گزار کر اس دنیا سے کوچ کرگیا (انا للہ وانا الیہ راجعون) اس خطرے سے نپٹ کر زرداری صاحب نئی حکومت کی تشکیل کے لیے اسلام آباد پہنچے اور انہوں نے پارٹی کی اہم اور طاقت ور مشاورتی کمیٹی (سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی) کا اجلاس بلا لیا اب یہ نہیں معلوم کہ اجلاس کے دوران یا اس سے ہٹ کر انہوں نے آغا سراج درانی جو مشکل کی اس گھڑی میں مسلسل سائے کی طرح ان کے ساتھ تھے کو کہاکہ وہ تیاری کریں اگلے وزیر اعلی سندھ وہ ہوں گے کوئی شب کے 11 یا 12 بجے ہوں گے کہ مجھے آغا جاوید کا فون آیا کہ میں آغا سراج درانی کا پیغام لے کر آرہا ہوں آپ دفتر میں رکیں آغا جاوید (مرحوم) وہ جذباتی جیالا تھا جس نے محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد ان پر تبرا کرنے والے اس وقت کے وزیر اعلی ارباب غلام رحیم کو سندھ اسمبلی کی گیلری میں جوتا مارا تھا جس پر وہ جیل بھی گیا اور پولیس تشدد کا نشانہ بھی اور پارٹی میں اسے ہیرو کا درجہ ملا وہ آغا سراج درانی کی برادری سے اور ان کا قابل اعتماد کارکن تھا اس نے آتے ہی پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بتایا کہ زرداری صاحب نے آغا سراج کو سندھ کی وزارت اعلی کے لیے نامزد کردیا ہے اس کی خبر چلانی ہے مینے اس کی مخالفت کرتے ہوے آغا سراج سے جاوید کے نمبر سے ہی بات کی اور انہیں اس کے نقصان دہ مضمرات سے آگاہ کیا اور کہاکہ اس مرحلے پر خبر کی اشاعت نقصان دہ ہوگی سندھ میں طاقت ور سید لابی کے علاوہ سید قائم علی شاہ موجود تھے جو محترمہ بے نظیر کا بھی انتخاب رہے تھے پھر وہ حالیہ الیکشن میں پیر پاگارا کو ہرا کر بھاری اکثریت سے انتخاب جیتے تھے اس کے علاؤہ بھی کچھ دیگر خطرات میں محسوس کررہا تھا مگر آغا سراج خبر شائع کرنے پر بضد تھے وہ بہت پرجوش اور جذباتی ہورہے تھے مینے ان کے اصرار پر خبر شائع کردی جو روزنامہ آج کل میں صفحہ اول پر سنگل چھپی میں ان دنوں اس اخبار کا کراچی میں چیف رپورٹر تھا یہ اخبار نجم سیٹھی اور سلیمان تاثیر نے مل کر نکالا تھا یہ منفرد اسلوب اور خبروں کی ترسیل کے نئے انداز کی وجہ سے روز بروز مقبول ہورہا تھا دوسرے روز یہی خبر کئی چینلز میں نشر اور اخبارات میں چھپی جس پر سیاسی حلقوں میں عموما اور پی پی میں خصوصا ہلچل مچ گئی وزارت اعلی کے تین چار دیگر اُمیدواروں نے توڑ جوڑ شروع کردیا،
(بقیہ: اگلی قسط میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں