روس سے کشیدگی، جرمن قوم کسی ممکنہ جنگ کے لیے تیار نہیں…..سرور غزالی

یوکرین اور روس کے مابین جنگ ہنوز جاری ہے۔ اس سلسلے میں روس نے متعدد بار جرمنی کو اس بات پر متنبہ کیا کہ وہ یوکرین کی حمایت میں اتنا آگے نہ بڑھے کہ یہ حمایت خوداس کے لیے خطرہ بن جائے۔ جون 2026 میں بھی کریمل کے چیف والڈی میر پوٹین نے جرمنی کو یہ دھمکی دی تھی کہ جرمنی کا یوکرائن کو اسلحے کی ترسیل کا عمل خود جرمنی کے لیے خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ جب کہ ماضی میں جرمنی ہمیشہ ہی اس بارے میں یہ وضاحت دیتا رہا ہے کہ جرمنی ایسا اسلحہ یوکرین کو نہیں دے رہا جس کی پہنچ روس تک ہو۔
مگر اب روس نے ایک دفعہ پھر اپنے سرکاری ٹیلی ویژن کے ذریعے نو منتخب چانسلر امیدوار مسٹر میرز کی اپنی تقرری سے قبل اس بات کے اعادہ پر، کہ جرمنی کی نئی حکومت یوکرین کو اسلحے کی ترسیل جاری رکھے گی۔ اور درمیانی فاصلے تک کی مار والے طارس راکٹ یوکرین کو ضرور مہیا کرے گی۔ مسٹر میرز کے بیان کے جواب میں روس نے جوابی کاروائی کی دھمکی دی ۔ روسی ٹی وی کے ایک جرنلسٹ والڈیمیر سلو یو نے روسی سرکاری ٹی وی پر گفتگو کے دوران یہ کہا ہے کہ ہم جرمنی کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے اگر اس نے یوکرین کو مزید اسلحے کی ترسیل جاری رکھی تو۔ روسی ٹی وی کے یہ جرنلسٹ والڈیمر سلو یو، صدر پوٹین کے ایک اہم حمایتی ہیں۔ اور ان کا بیان روس کی برہمی کو واضح کرتا ہے۔
ممکنہ روسی حملے کے پیش نظر جرمنی اپنے آپ کو نہ صرف اسلحے سے مرسع کررہا ہے بلکہ دیگر فوجی تنصیبات کو ازسر نو محفوظ بھی بنا رہا ہے۔
جرمنی میں حالیہ قرضے لینے کے قوانین کا بل پاس ہوا ہے۔ اس میں ایک بڑی رقم اسلحے کی تیاری، خریداری اور فوج کو جدید خطوط پر تیار کرنے کے لیے مختص کی گئی ہے۔
اس سلسلے میں جرمنی میں ریزرو فوجیوں کی ایک بڑی تنظیم کے صدر مسٹر فالرر نے بھی کافی تفصیل سے ایک بیان دیا ہے اور جس میں انہوں نے جرمنی کی فوجی قوت کو بڑھانے کی طرف توجہ دلائی ہے اور لازمی فوجی سروس کو از سر نو لاگو کیے جانے کی بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ جس کے تحت تمام نوجوانوں کو 18 سال کی عمر کے بعد لازمی فوجی تربیت دی جاتی تھی جسے بعد میں ختم کر دیا گیا تھا۔ اس پر ازسر نو غور کیا جا رہا ہے کہ اس لازمی سروس کو پھر سے بحال کیا جائے۔
جرمنی کے ایک مشہور ٹی وی ٹاکر زونکے نیت سیل نے، کارن میوز کا کے ایک ٹاک شو میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہا ہے امن کا یہ شاید آخری موسم گرما ہو جسے ہم گزار رہے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق ہم ابھی پرامن طریقے سے اس سال کا موسم گرما منا رہے ہیں لیکن شاید یہ ہمارا آخری پرامن موسم گرما ہو ان کا یہ بیان دراصل جرمنی کے ایک فوجی تاریخ کے ماہر کے بیان کی تصدیق کی صورت میں تھا جس میں انہوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس، بیلاروس کے ساتھ مل کر بالٹک سمندر کی جانب سے موسم خزاں میں جرمنی پہ حملہ کرے گا۔
اسی ٹاک شو میں ایک اور خاتون زبینے آڈلر نے بات چیت کے دوران کہا کہ یورپین یونین اور ناٹو کو درحقیقت جنگ کے خطرات کا سامنا ہے۔ زبینے آڈلر مشرقی یورپ کے معاملات کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ جن کے مطابق روس نے حملے کی پوری تیاری کر لی ہے۔

اسی طریقے سے جرمنی کے ایک اہم ٹیلیویژن، اے آر ڈی پر فوجی تاریخ کے ایک پروفیسر نے یہ بتایا ہے کہ ہم لوگ اصلی جنگی خطرات سے آنکھ بند کیے کب تک بیٹھے رہ سکتے ہیں ان کے بیان کے مطابق جرمنی فوجی تعمیر نو کی طرف سے عرصے سے منہ چراتا رہا ہے لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اس جانب بھرپور طور پر، سنجیدگی سے توجہ دے۔
اس طرح کے ٹی وی ٹاک اور اخبارات میں ہونے والے بیانات اور مباحث نے عوام کے اندر کافی بے چینی اور مایوسی پھیلا دی ہے۔
بالٹک سمندر پر ہر سال موسم گرما میں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے جو کہ اس علاقے کی آمدنی کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ اس طرح کے مایوس کن بیانات اور صورتحال کے پیش نظر جرمنی کی سیاحت کی تنظیم نے اس سال بالٹک سمندر پر آنے والے سیاحوں کی کمی کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
جنگ عظیم دوم کی شکست کے بعد جرمنی کا ہمیشہ سے یہ رویہ رہا تھا کہ جرمن سرزمین سے پھر کسی جنگ کا آغاز نہ ہو۔ عرصہ دراز تک امریکی، فرانسیسی، برطانوی اور خاص کر روسی تسلط نے جرمنی کے اندر ایک انتہائی
passive
جنگ سے دور رہنے کے رویے کو جنم دیا تھا یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں فوجی لازمی تربیت کو بھی ختم کر دیا گیا تھا۔ اب روس کے یوکرین پر حملے اور اس پر جرمنی کے رد عمل کے بعد معاشرے میں اس صورتحال کو بدلے جانے کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن عوام میں اب بھی جنگ سے دور رہنے کا رویہ اور جنگ کے مضمرات کا خوف موجود ہے۔ جنگ کی مذمت کی وجہ سے عملی طور پر جرمن قوم ابھی کسی جنگ کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں