کنزیومر واچ رپورٹ
ہمدرد بلاشبہ ایک معیاری ادارہ ہے حکیم محمد سعیدشہید جیسی باوقار شخصیت کی سربراہی میں چلنے والے ادارے نے بہت نام پیدا کیا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس ادارے نے بھی صارفین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی صارفین جب پاکستان اور یو اے ای میں فروخت ہونے والے روح افزاء کا موازنہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں،پاکستان میں فراہم کی جانے والی روح افزاء کی بوتل پر پھلوں کی تصویر والا لیبل ہوتا ہے اور دبئی میں فروخت ہونے والے روح افزا ء کے لیبل پر پھلوں کی تصویر نہیں ہوتی اس سے صارفین کے ذھن میں یہ بات آرہی ہے کہ ہمدرد ہم سے ناانصافی کر رہا ہے ادارے کی جانب سے اس اہم ترین مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے جس سے صارفین میں شکوک وشبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ دبئی میںقوانین سخت ہیںاور پاکستان میں قانون کا احترام نہیں اس لئے ہمدرد نے دوھرا معیار اپنایا ہے،حقیقت یہ ہے کہ روح افزاء ایک معیاری شربت ہے اوربہت بڑی تعداد میں فروخت ہوتا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ روح افزاء میں پھلوں کا رس شامل نہیں ہوتا بلکہ دیگر مفید اور صحت بخش اجزا سے اس کو ایک منفرد شربت بنایا گیا ہے مگر اس کی آڑ میں پھلوں کی تصویر والا لیبل لگا دینا اخلاقی اور قانونی اعتبار سے درست نہیں ہے، درج ذیل میں صارفین کے تا ثرات پیش کئے جا رہے ہیں۔
روح افزاء ایک طویل عرصے سے ہمارے خاندان میں پورے اعتمادکے ساتھ استعمال ہورہا ہے مگر اس اعتماد کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب میں ملازمت کے سلسلے میںدبئی گیااور وہاں روح افزاء خریدنے کا اتفاق ہوا میں حیران رہ گیا کہ وہاں فروخت ہونے والی روح افزاء کی بوتل کے لیبل سے پھلوں کی تصویر غائب کردی گئی جبکہ پاکستان میں فروخت ہونے والی روح افزاء کی بوتل کے لیبل پر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ پھلوں کی تصویرپرنٹ کی جاتی ہے ہمدرد کے اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پر مجھے بہت افسوس ہوااس اقدام کو صاف طور پر صارفین کے ساتھ ناانصافی قرار دیا جائے گا ان خیالات کا اظہاردبئی میں مقیم کراچی کے ایک رہائشی سلمان احمد نے کیا ،انھوں نے مطالبہ کیا کہ ہمدرد کے ذ مہ دار فی الفورپاکستان میں فروخت ہونے والی روح افزاء کی بوتل کے لیبل سے پھلوں کی تصویر ہٹائیں۔دبئی میں مقیم کراچی کی ماریہ نے کہا کہ یو اے ای میں قوانین بہت سخت ہیں اور یہاں صارفین کے ساتھ فراڈ کرنے والی کمپنی پر پابندی لگا دی جاتی ہے شاید اسی لئے دبئی میں فروخت ہونے والی روح افزاء کی بوتل کے لیبل سے پھلوں کی تصویر غائب ہے کیونکہ روح افزاء میں پھلوں کا رس شامل نہیں ہوتاجبکہ پاکستان میں بے فکری کے ساتھ پھلوں والا لیبل لگا کر روح افزا ء فروخت کیا جارہا ہے اور یہ ناانصافی ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں،محمدفیاض کہتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک ہوتا تو روح افزا ء کے اس طرز عمل پر کارروائی کی جاتی مگر ہم عرصہ دراز سے دیکھ رہے ہیں کہ معاملہ اسی طرح چل رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ،ہمارے صارفین کو بھی اپنے حقوق اور قوانین کا ادراک نہیں اس لئے کاروباری ادارے بے فکری سے کنزیومر کرائم کرتے ہیں اور کوئی ایکشن نہیں ہوتا ایک خاتون صارف عالیہ کہتی ہیں کہ ہمدرد ایک ایسا ادارہ تھا جس پر سب پاکستا نیوں کو فخر تھا مگر جب سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ ہمدرد اس طرح سے صارفین کو بے وقوف بنا رہا ہے تو بہت افسوس ہوا۔عبدالحمید کہتے ہیں کہ جس ادارے کے سربراہ حکیم سعید جیسی بے داغ شخصیت رہی ہو اس ادارے سے ایسی توقع نہیں تھی ہمدرد کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں بھی لیبل سے پھلوں کو ہٹا دیں تاکہ ان پر لگنے والا داغ دھل سکے،ایک اورخاتون صارف ارم نے کہا کہ ہم سب بچپن سے روح افزاء استعمال کر رہے ہیں ہم سمجھتے ہیں روح افزاء کا نعم البدل کوئی نہیں پھر جب روح افزاء پر صارف کو اعتماد ہے تو روح افزاء کیوں صارفین کے اعتماد سے کھیل رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمدرد کا مؤقف نا مل سکا
نمائندہ کنزیومر واچ نے مذکورہ رپورٹ کے حوالے سے روح افزاء تیار کرنے والے ادارے ہمدرد سے موقف حاصل کرنے کی کوشش کی مگر تادم تحریر کامیابی نا مل سکی،اگر ادارہ ہمدرد اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد بھی اپنا موقف دینا چاہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے اور اس کی اشاعت کو ممکن بنائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روح افزاء کی تاریخ
روح افزا کے اولین نسخہ ساز حکیم استاد حسن خان تھے جنھوں نے اسے سنہ 1907ء میں تیار کیااور اس میں حکیم محمد سعید کے والد حکیم عبد المجید کا بھی حصہ تھا۔مشروب مشرق روح افزا کی ایجاد دہلی میں ہوئی۔حکیم عبد الحمید دہلوی کہتے ہیں: ’’سنہ 1945ء میں روح افزا کی پہلی فیکٹری دریا گنج میں قائم ہوئی‘‘۔پاکستان میں یہ شربت ہمدرد لیبارٹریز (وقف) پاکستان میں تیار ہوتا ہے، جبکہ بھارت میں اس مشروب کو ہمدرد (وقف) لیبارٹریز میں تیار کیا جاتا ہے۔ کمپنی پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش میں روح افزا تیار کر رہی ہے۔مشروبِ مشرق روح افزا گذشتہ کئی دہائیوں سے بہت سے لوگوں کا پسندیدہ مشروب رہا ہے، بالخصوص رمضان کے مہینے میں افطار کے موقع پر من پسند مشروب تصور کیا جاتا ہے۔ روح افزا کے مخصوص یونانی نسخہ میں کئی اجزا کو ملایا گیا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ٹھنڈک پہنچاتے ہیں، جیسا کہ گلاب جو لْو کے علاج کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ روح افزا گولا گنڈا، آئس کریم اور فالودہ وغیرہ کے ساتھ استعمال کے لیے بھی مشہور ہے۔روح افزا کا نام پنڈت دیا شنکر نسیم کی نظم “مثنوی گلزارِ نسیم” کے ایک کردار پر رکھا گیا تھا۔ روح افزا اپنی ٹھنڈی اور تر و تازہ تاثیر کے لیے مشہورہے۔ روح ا فزا کا بنیادی مقصد لوگوں کو گرمی کی شدت سے نجات دلانا اور انہیں توانائی فراہم کرنا ہے روح افزا کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ درپیش ہے جو صارفین کی اعتماد کو متاثر کررہا ہے۔ روح افزا نے متحدہ عرب امارات میں بوتل سے پھلوں کی تصویر ہٹا دی ہے، لیکن پاکستان میں یہ تصویر موجود ہے، تو بلاشبہ یہ کنزیومر کرائم یا صارفین کو گمراہ کرنے کی ایک شکل ہے۔ صارفین کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اس بارے میں صحیح معلومات حاصل کریں کمپنی جو کچھ کر رہی ہے وہ قانونی اور اخلاقی طور پر غلط ہے۔ ایسا کرنے سے نا صرف کمپنی کی شہرت متاثر ہو سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قانون کے تحت بھی اس پر کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ کمپنی کو واضح اور صحیح معلومات فراہم کرنا ہوگی تاکہ صارفین کو یہ پتہ چل سکے کہ مصنوعات میں دراصل کیا چیزیں شامل ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ صارفین کو اپنے حقوق کا دفاع کرنا چاہیے اور کمپنیوں کے اس طرح کے رویوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔